السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سیالکوٹ سے ظفر اقبال لکھتے ہیں۔کہ ایک شخص ا پنی ذاتی اور خاندانی مجبوریوں کے پیش نظر یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کی بیوی کچھ عرصہ تک بچہ نہ جنے اور مانع حمل طریقے استعمال کرنے کے متعلق اسے آمادہ کرنے کے لئے بطور دھمکی کہتا ہے کہ اگر تو نے بچہ جناتو تجھے طلاق دے دوں گا اور اس بات کااظہار اپنے دوست سے کرتا ہے تو یوں کہتا ہےکہ''میری بیوی جب جنے گی تو سے طلاق ہوجائےگی اگر ہوگی تو کیا پہلے بچے کی ولادت پریا ہر بچے کی پیدائش پر طلاق کا مسئلہ جاری رہے گا؟نیز کیا طلاق کے لئے دو گواہوں کا ہوناضروری نہیں اگر نہیں تو کیوں؟جبکہ قرآن نے اسے بیان کیا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ خاوند نے جس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلئے اپنی بیوی کو جو دھمکی دی ہے عورت اس معاملہ میں بالکل مجبور اور بے بس ہے کیوں کہ بچہ جننا یا نا جننا عورت کے اختیار میں نہیں ہے اس لئے خاوند کا اپنی بیوی کو اس قسم کی فضول دھمکی دینا جائز نہیں ہے۔نفس مسئلہ کی وضاحت یہ ہے کہ طلاق دو طرح سے ہوتی ہے۔
جو فی الفور نافذ ہوجائے مثلاً یوں کہا جائے کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔
جو فی الفور نافذ العمل نہ ہو بلکہ اسے کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے پر معلق کیاجائے مثلاً یوں کہا جائے کہ اگر تو نے گھر سے باہر قدم رکھا تو تجھے طلاق ہے ۔اس صورت میں جب بھی عورت گھر سے باہر قدم رکھے گی تو اسے طلاق ہوجائےگی۔ لیکن اس سلسلہ میں یہ بات ضرور مد نظر رہنی چاہیے کہ خاوند اپنی بیوی پر جو پابندی عائد کررہا ہے ذہنی طور پر اس وقت کی حد بندی کہاں تک ہے بظاہر زندگی بھر کے لئے اس پر پابندی عائد کرنا اس کا مقصد نہیں اور نہ ہی ایسا کرنا کسی عقلمند شخص کو زیب دیتا ہے۔اگر ذہن میں طے شدہ وقت کے بعد پابندی کی خلاف ورزی ہوتو طلاق غیر مؤثر ہوگی کیوں کہ اس کا زمانہ ختم ہوچکا ہے اس وضاحت کے بعد جب ہم صورت مسئولہ کا جائز لیتے ہیں۔تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں طلاق کا تعلق دوسری قسم سے ہے کیوں کہ خاوند نے اپنے کسی عزیز کے پاس کہا ہے کہ میری بیوی جب بھی بچہ جنے گی سے طلاق ہوجائےگی اب جب بھی وہ بچہ جنے گی اسے طلاق ہوجائےگی لیکن مذکورہ وضاحت کے پیش نظریہ دیکھنا پڑے گا۔کہ بچہ نہ جننے کی پابندی کا وقت کہاں تک ہے۔یہ تو خاوند ہی جانتا ہے کہ سوال میں''کچھ عرصہ''سے کتنی مدت مراد ہے۔۔۔؟اس مدت کےبعد اگر کوئی بچہ پیدا ہوتو طلاق غیر مؤثر ہوگی کیوں کہ اس پابندی کا وقت ختم ہوچکاہے۔خاوند کا اگرچہ طلاق دینے کا ارادہ نہیں ہے تاہم یہ تیر اس کے ترکش سے نکل چکا ہے جو مجوزہ ذہنی مدت کے دوران بچے جنتے ہی نشانے پر بیٹھ جائے گا۔اگر واقعی وہ اپنی بیوی کو آباد کرنے میں مخلص ہے تو بچہ جننے کے بعد عدت کے اندر اندر رجوع کرے اور آئندہ اس قسم کی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایسی لغویات سے پرہیز کرنے کا عہد کرے۔باقی رہا طلاق کے لئے دد گواہوں کا معاملہ تو واضح رہے کہ قرآن کریم نے اگرچہ اس کا زکر ضرور کیا ہے جیسا کہ سورۃ الطلاق میں ہے تاہم یہ ایک حکیمانہ ہدایت ہے جس پر عمل پیرا ہونا بہتر ہے ضروری نہیں تاکہ فریقین میں سے کوئی بھی بعد میں کسی واقعہ سے انکار نہ کرسکے۔اور آئندہ پیداہونے والے شکو ک وشبہات کادروازہ بھی بند ہوجائے صورت مسئولہ میں تو گواہی کی ضرورت نہیں کیوں کہ خاوند اس بات کا معترف ہے کہ میں نے اپنے کسی عزیز کےہاں یہ الفاظ کہے لہذا احتیاط اس میں ہے کہ اس کی بیوی جب پہلا بچہ جنے تو خاوند عدت کے اندر اندر رجوع کرے اور آئندہ ایسی فضول حرکت نہ دھرائے۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب