السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ظفر اقبال بزریعہ ای میل سوال کرتے ہیں۔کہ ایک شخص ا پنے دوستوں کے سامنے اس طرح کہتا ہے کہ میں جس سے بھی شادی کروں اسے طلاق ہے۔کیا اس طریق طلاق کہنے کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن پاک کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق اسی صورت میں واقع ہوتی ہے۔جبکہ پہلے نکاح ہوچکاہو نکاح سے پہلے طلاق بے اثر اور لغو ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلےطلاق دودو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کرسکو۔''(33/الاحزاب :49)
اس آیت کریمہ سے متعدد قانونی احکام نکلتے ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق لغو ہے اس لئے اگر کوئی شخص اس طرح کہتا ہےکہ''اگر میں فلاں عورت سے یا فلاں قبیلہ یا فلاں قوم کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔''یہ قول لغو اوربے معنی ہے اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں تفصیل سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے۔اس موقف کی تائید میں مندرجہ زیل احادیث بھی پیش کی جاتی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ابن آدم جس چیز کا مالک نہیں اس کے متعلق طلاق کا اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔''(ترمذی :الطلاق '1118)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر اہل علم کایہی موقف ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ جابر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بے شمارفقہاء تابعین میں سے یہی منقول ہے کہ اس طرح کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی کہا ہے۔
حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اوراسحاق راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ اگر اس طرح کہنے کے بعد وہ کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے تو تم اسے علیحدگی کانہیں کہہ سکتے۔نیز حدیث میں ہے'' کہ نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں ۔''(ابن ماجہ :الطلاق 2059)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبل از نکاح طلاق دینے کا فیصلہ لغو اور بے اثر ہے۔کچھ فقہاء کا یہ خیال ہے کہ اس آیت اور پیش کردہ احادیث کااطلاق صرف اس بات پر ہوتاہے کہ کوئی شخص کسی عورت کو جو اس کے نکاح میں نہ ہو اس طرح کہے کہ تجھ کو طلاق ہے، یا میں نے تجھے طلاق دی:ایسا کہنا بلاشبہ لغو اور باطل ہے۔جس پر کوئی قانونی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔لیکن اگر وہ یوں کہتا ہے کہ ''اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھے طلاق ہے تو یہ نکاح سے پہلے طلاق دینا نہیں ہے بلکہ اس امر کااعلان کرنا ہےکہ جب وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی تو اس پر طلاق وار د ہوگی۔ایسا کہنا لغو اور بے اثر نہیں ہے۔بلکہ جب بھی وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی اسی وقت اس پر طلاق پڑجائےگی۔پھر قائلین وقوع طلاق کا اس امر میں اختلاف ہے کہ اس قسم کی طلاق کی وسعت کس حد تک ہے؟
کچھ حضرات کہتے ہیں کہ عورت کی تخصیص کرے یا نہ کرے بہرصورت طلاق واقع ہوجائےگی۔کچھ حضرات کہتے ہیں کہ کسی قبیلے یا قوم کی تخصیص کرے توطلاق ہوگی۔بصورت دیگر نہیں بعض کا خیال ہے کہ تخصیص کے ساتھ وہ مدت کا تعین کرے مثلاً اگر میں اس سال یا آئندہ دس سال کے اندر فلاں عورت یا فلاں قبیلہ کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے تب یہ طلاق واقعہ ہوگی ورنہ نہیں۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس پر مزید فرماتے ہیں''کہ اگر یہ مدت اتنی طویل ہوجس میں اس شخص کا زندہ رہنا متوقع نہ ہوتو اس کا قول بے اثر ہوگا بصورت دیگر نکاح کرنے پر طلاق ہوجائےگی۔''ہمارے نزدیک یہ تمام قیود وشرائط کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہیں۔لہذا اس کے متعلق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ایسی طلاق لغو اور فضول ہے نکاح کرنے کے بعد اس کاکوئی اثر نہیں ہوگا۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب