سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(354) حمل وضع ہونے کے بعد رجوع

  • 11616
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 1671

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پیر محل سے سکندر حیات سوا ل کرتے ہیں۔کہ ایک عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی۔جبکہ وہ حاملہ تھی تقریبا ً طلاق کے ڈیڑھ ماہ بعد وضع حمل ہوا کیا اب رجوع ممکن ہے؟اگر  رجوع ممکن نہیں تو دوران عدت اپنے اخراجات اور بچے کی پیدائش کا خرچہ لے سکتی ہے ؟نیز نوزائیدہ بچے کا زمہ دار کون ہے جبکہ والدہ اسے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتی اس کے علاوہ نکاح کےوقت جو عورت کو والدین کی طر ف سے سازوسامان دیا گیا تھا یا خاوند کو سسرال کی طرف سے جو تحائف دیئے  گئے تھے ان کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال واضح ہے ہوکہ  اگرخاوندنے اپنی بیوی کو رجعی طلاق دی ہے۔تو عدت کے دوران اسے رجوع کرنے کا حق ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ ان کے خاوند کو اگر صلح کرنا چاہیں تو دوران عدت اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔''(2/البقرہ :228)
اگر عدت گزر جائے تو ایک دوسری شکل ہوگی وہ یہ کہ اگر بیوی آنے پر آمادہ ہوتو نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح جدید ہوگا یوں کہ عدت کے گزرنے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں پہلے خاوند سے نکاح کرنے سے نہ روکو  جب کہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے پر راضی ہوں۔''(2/البقرہ 232)

صورت مسئولہ میں عورت بوقت طلاق حاملہ تھی۔اور حاملہ مطلقہ کی عدت  وضع حمل ہے۔ارشا د باری تعالیٰ ہے:'' اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔''(65/الطلاق :4)

مذکورہ عورت کا طلاق کے بعد وضع حمل ہوچکا ہے۔جس کے ساتھ ی اس کی عدت بھی ختم ہوچکی ہے چونکہ نکاح بھی ختم ہوچکا ہے اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ اگر لڑکی اپنا گھر بسانے پر آمادہ ہے تو تجدید نکاح سے ایسا ممکن ہے لیکن اس  کے متعلق عورت پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا کیوں کہ اب معاملہ عورت کی صوابدید اور رضا مندی پر موقوف ہے۔

دوران عدت خاوند کو اپنی مطلقہ بیوی کے جملہ اخراجات بھی برداشت کرنا ہوں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اوراگر (مطلقہ عورتیں) حمل سے ہوں تو وضع حمل تک ان کا خرچہ دیتے رہو۔''(65/الطلاق:6)

اس کے علاوہ وضع حمل پر اٹھنے والے اخراجات کا بھی خاوند سے مطالبہ کیا جاسکتا ہے کیوں کہ عورت نے بچہ خاوند کا ہی جنم دیا ہے۔بچے کی پیدائش کے بعد جب ماں بچے کو دودھ پلاتی رہے گی تو اس کے جملہ اخراجات بھی بذمہ خاوند ہوں گے اور اس سے ان اخراجات کا مطالبہ کیاجاسکتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''پھر اگر وہ بچے کو تمہارے کہنے پر دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو۔''(65/الطلاق:6)

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور لباس دستور کے مطابق باپ کے ذمہ ہوگا۔''(2/البقرہ :233)

اگر مطلقہ بیوی بچے کو دودھ نہیں پلانا چاہتی تو اسے مجبور نہیں کیاجاسکتا جیسا کہ ارشاد باری  تعالیٰ ہے:'' ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان نہ پہنچایا جائے۔''(2/البقرہ :233)

اندریں حالات صورت مسئولہ میں اگر مطلقہ اس نوزائیدہ بچے کو اپنے پا رکھنا چاہتی ہے تو یہ اس کاحق ہے اسے مجبورا نہیں کیا جاسکتا۔واضح رہے کہ یہ تمام باتیں اس صورت میں ہیں۔جب عورت رجوع یعنی تجدید نکاح  پر رضا مند نہ ہو اگر وہ  رجوع پر راضی ہے تو کوئی پیچیدگی    نہیں ہے۔ رجوع نہ ہونے کی صورت میں والدین کی طرف سے اپنی بچی کو جو سازوسامان دیاگیا خاوند سے اس سامان کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے۔کیوں کہ وہ لڑکی کا ذاتی سامان ہے۔ جو اس کے والدین نے اسے استعمال کے لئے دیا تھا طلاق کے بعد خاوند کا  اس میں کوئی حق نہیں ہے لیکن جو سامان نکاح کے بعد استعمال ہوچکا ہے۔یا ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اس کا مطالبہ صحیح نہیں ہے ۔اسی  طرح سسرال کی طرف سے خاوند کو شادی کے موقع پر جو تحفہ یا ہدیہ دے کر پھر اس کی واپسی کامطالبہ کرنا ایسا ہے جیسے کتا ا پنی قے کو چاٹتاہے۔شریعت نے اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:'' کہ ہمارے ہاں ہدیہ دے کرواپسی کامطالبہ کرنے والے کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی بُری مثال نہیں ہے کہ کتاا پنی قے کو  چاٹتا ہے۔''(صحیح البخاری :الھبۃ 2622)

حضرت قتادہ  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں''کہ ہم قے کو حرام جانتے ہیں۔یعنی ھبہ دے کر واپسی کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔''

مختصر یہ ہے کہ حاملہ عورت کو اگر طلاق دی جائے تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔دوران عدت نکاح جدید کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے وضع حمل کے بعد عورت کی رضا مندی سے نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرکے رجوع ممکن ہے۔دوران عدت خاوند کو اپنی بیوی کے جملہ اخراجات برداشت کرنا ہوں گے اور بچے کی پیدائش پر اٹھنے والے اخراجات کا بھی وہ خود ذمہ دار ہے۔شادی کے موقع پر والدین نے جو بچی کو سازوسامان دیا تھا اس کا مطالبہ خاوند سے کیاجاسکتا ہے لیکن اس موقع پر  خاوند کو جو تحائف وغیرہ دیئے گئے ہیں ان کی واپسی کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:366

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ