السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ٹنڈو آدم سے محمد ایوب ولد مہر دین سوال کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کوطلاق دی جبکہ وہ حاملہ تھی دوران عدت اسے لڑکا پیدا ہو ا ۔عدت کے بعد اس عورت نے آگے شادی کرلی لڑکی نے اپنی ماں کے پاس پرورش پائی یہ لڑکا اپنے باپ کی خدمت نہیں کرتا بلکہ مطلب کے لئے اس کے پاس جاتا ہے۔ جبکہ وہ اپنی ماں اوراس کے بطن سے پیدا ہونے والے دوسرے سوتیلے بھائیوں کی خوب دیکھ بھال کرتا ہے کیا اس قسم کا لڑکا باپ کی وراثت کا حقدار ہوسکتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک مسلمان کے لئے اس کے والدین کا زندہ رہنا بہت بڑی نعمت ہے اور ان کی خدمت کرنا سعادت مندی کی علامت ہے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کی گئی ہے۔صورت مسئولہ میں اس بات کا شکوہ کیا گیا ہے۔کہ لڑکا والد کی خدمت نہیں کرتا لیکن سوال یہ ہے کہ والد نے اپنے بچے کی تربیت وپرداخت کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے۔جو بچہ اپنی ماں کےہاں دوران عدت پیدا ہوا اور اپنی ماں کے ہاں پروان چڑھا ہو جبکہ باپ نے اس کا خیال تک نہ رکھا ہو کیا ایسے بچے سے والد کی خدمت کے لئے کوئی امید وابستہ کی جاسکتی ہے چاہیے تو یہ تھا کہ والد اپنے بچے کی خود تربیت کرتا اور اس کی پورش کرکے اس کے ہاں اپنی اہمیت واضح کرتا لیکن اسے حالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا جہاں وہ انتہائی نفرت وحقارت کے ماحول میں پوران چڑھا ہے۔ اب والد کا یہ شکوہ کرنا یہ میری خدمت نہیں کرتا اور صرف مطلب برآری کے لئے آتا ہے۔بالکل بے محل ہے یہ بھی یاد رہے کہ تقسیم جائیداد کا طریق کار خود اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ ہے ا س میں کسی مخلوق کی طرف سے کوئی ترمیم واضافہ نہیں ہوسکتا۔وراثت کے محرومی کے اسباب قتل وارتداد وغیرہ ہیں جو صورت مسئولہ میں نہیں پائے جاتے۔لہذا جائیداد سے کسی کو صرف اسی وجہ سے محروم نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نافرمان ہے۔یا وہ والد کاخدمت گزار نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ جو مال والدین یا رشتہ دار چھوڑ مریں وہ تھوڑا ہویا زیادہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اورعورتوں کابھی یہ حصے (اللہ کے ) مقرر کئے ہوئے ہیں۔''(4/النساء 7)
اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کو بلاوجہ شرعی محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کو یہ حق ہے۔اخبارات میں جو آئے دن عاق نامے شائع ہوتے ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔موجودہ صورت میں جب لڑکا اپنی ماں کے پاس ہی رہتا ہے تو اس کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد سے اس کا اچھا برتاؤ ماں کی طرف سے اس کی زہنی تربیت کا نتیجہ ہے اور اس میں شرعا ً کوئی قباحت نہیں ہے والد کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کا سا پیار دے تاکہ وہ اس کی خدمت کو اپنے لئے سعادت مند خیال کرے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب