السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گوجرہ سے محمد صابر لکھتے ہیں۔ کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح کسی سے کیا لیکن رخصتی سے پہلے اس نے طلاق دے دی تقریبا طلاق کو پانچ ماہ گزرچکے ہیں۔ کیا اس صورت میں پہلے خاوند سے اس کا نکاح ہوسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ طلاق اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے:''حلال کاموں میں اللہ کو ناراض کردینے والی چیز طلاق ہے۔''(ابو داؤد حدیث نمبر4178)
لیکن بعض اوقات ا س قدر مجبوری بن جاتی ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔دین اسلام میں طلاق کا ایک مستقل ضابطہ ہے اگر انسان اس پرعمل پیرا ہوکرطلاق دے تو بعد میں ندامت اور شرمساری نہیں ہوتی واضح رہے کہ شریعت میں طلاق کی دو اقسام ہیں:
1۔طلاق رجعی۔2۔طلاق بائن
رجعی طلاق میں خاوند کو حق ہوتا ہے کہ وہ دوران عدت اپنی بیوی سے بلاتجدید نکاح رجوع کرے اس کے برعکس طلاق بائن میں رشتہ ازدواج ٹوٹ جاتا ہے۔طلاق بائن کی پھر دو اقسام ہیں:(بینونت صغریٰ)عدت گزرنے کے بعدرجوع کا خیال آیا تو اس صورت میں نکاح جدید کرنا پڑتاہے۔(بینونت کبریٰ) اس میں طلاق دینے کے بعد نکاح جدید کا حق بھی ختم ہوجاتا ہے۔بینونت کبریٰ میں صرف ایک صورت نکاح کر باقی رہتی ہے۔کہ وہ عورت آگے کسی آدمی کے ساتھ اپنا گھر بسانے کی نیت سے نکاح کرے اگر وہ طلاق دےدے یا فوت ہوجائے۔تو عدت گزرنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتاہے لیکن اس کا نکاح کا بدنام زمانہ حلالہ جیسے سازشی نکاح سے کوئی تعلق نہ ہو۔ کیونکہ اس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے۔صورت مسئولہ میں چونکہ خاوند نے رخصتی سے پہلے طلاق دے دی ہے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ایسی عورت پر کوئی عدت نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اے ایمان والو! جب تم اہل ایمان خواتین سے نکاح کرو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے۔جس کے پورے ہونے کا تم ان سے مطالبہ کرو۔''(33/الاحزاب :49)
ایسی عورت کو طلاق کے فورا بعد نکاح ثانی کرنے کی اجازت ہے اندریں حالات اگر خاوند کا اس مطلقہ سے رجوع کاارادہ ہوتو تجدید نکاح سے یہ ممکن ہے کیوں کہ پہلا نکاح ختم ہوچکا ہے چونکہ یہ بینونت صغریٰ ہے اس لئے نئے نکاح کی گنجائش ہے لیکن اس کے لئے چار شرائط ہیں۔
1۔عورت رضا مند ہو
2۔سرپرسست کی اجازت ہو۔
3۔حق مہر کی تعین ہو۔
4۔گواہ موجود ہوں۔
فقہائے اسلام نے تصریح کی ہے کہ ایسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا ضروری نہیں ہے۔بلکہ اس کے بغیر ہی پہلے خاوند سے نکاح ہوسکے گا۔لہذا صورت مسئولہ میں نئے حق مہر کے ساتھ ازسر نواس خاوند سے نکاح کیا جاسکتا ہے (واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب