السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بدوملہی سے چوہدری بشیر احمد بشیر احمد ملہی لکھتے ہیں۔کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو مورخہ 12/8/1986 کو طلاق لکھی معززین نے مورخہ 13/11/86 کو صلح کرادی پھر ناراضی کی وجہ سے مورخہ 29/11/88 کو وضح حمل ہوا۔اس کے بعد 27/3/89 کو یونین کونسل کی طرف سے طلاق کے موثر ہونے کا سرٹفکیٹ جاری کردیاگیا۔اب فریقین صلح کرنا چاہتے ہیں قرآن وحدیث کی رو سے کیاایسا ہونا ممکن ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ طلاق کے متعلق مسائل دریافت کرنے کے لئے یہ وضاحت ضرور کیاکریں کہ طلاق دیتے وقت عورت کس حالت میں تھی آیا رخصتی ہوچکی تھی۔یا نہیں؟ماہواری ایام کے متعلق بھی وضاحت درکارہوتی ہے۔ کہ اگر بندش ہے تو کی صغر سنی بڑھاپا یا حمل کی وجہ ہے۔رجوع کے متعلق بھی تفصیل لکھیں کہ تجدید نکاح سے رجوع ہوا ہے یا دوران عدت رجوع نکاح کے بغیر ہوا ہے؟صورت مسئولہ میں اس قسم کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ جبکہ پہلی طلاق کے تین ماہ بعد معززین نے صلح کرائی ہے۔ تحریر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ طلاق کے بعد عدت ختم ہوچکی تھی کیوں کہ طلاق میں قمری مہینوں کااعتبار ہوتا ہے ان تین ماہ میں تین حیض آنے کا دورانیہ بھی پورا ہوجاتا ہے۔اب معززین نے اس وقت صلح کرائی ہے۔ جب نکاح ٹوٹ چکا تھا تجدید نکاح سے صلح ہوسکتی تھی۔ اگر دوبارہ نکاح کے بغیر صلح ہوئی ہے تو ایسا شرعاً جائز نہ تھا بلکہ اس کے بعد جو طلاق وغیرہ دی گئی ہے۔اس کے مؤثر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ عدت گزرنے کے بعد عورت خاوند کے لئے ایک اجنبی کی حیثیت اختیارکرجاتی ہے اسے طلاق دینا گویا کسی اجنبی عورت کوطلاق دینا ہے۔جبکہ وہ طلاق کی محل نہیں ہے۔اس کے برعکس اگردوبارہ صلح تجدید نکاح کے ساتھ ہوئی ہے تو مورخہ 29/11/88 والی طلاق دوسری طلاق شمار ہوگی۔مورخہ 31/12/88 کو یونین کونسل کی جانب سے دیا گیا نوٹس طلاق شمار نہیں ہوگا۔ کیوں کہ یہ حضرات اپنے ضابطے کے مطابق ہر ماہ نوٹس بھیجتے رہتے ہیں اسے ضابطہ کی کاروائی تو کہاجاسکتاہے اسے طلاق شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں اگر یہ نوٹس خاوندکی طرف سے اس کے دستخطوں کے ساتھ بھیجاجائے۔ تو اسے طلاق شمار کیا جائے گا۔ لیکن یونین کونسل کی جانب سے جو نوٹس دیا جاتا ہے۔ وہ خاوند کی طرف سے دی جانے والی طلاق کی فوٹو کاپی ہوتی ہے۔اس پر خاوند کے نئے دستخط نہیں کرائے جاتے۔ اس بنا پر خاوند کو وضع حمل تک تجدید نکاح کے بغیر رجوع کاحق حاصل تھا جواس نے استعمال نہیں کیا۔اب چونکہ طلاق کے بعد مورخہ 8/3/89 کو وضع حمل ہوچکاہے۔لہذا بچہ جنم دیتے ہی عدت بھی ختم ہوگئی ہے۔اگرفریقین صلح پر آمادہ ہیں تو ازسر نونکاح کرنے سے ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔جس کے لئے چارشرائط ہیں:
1۔عورت نکاح کرنے پر راضی ہو۔
2۔سرپرست کی اجازت ہو۔
3۔حق مہر کا تعین ہو۔
4۔گواہ موجود ہوں۔
لیکن یاد رہے کہ اب خاوند کے پاس طلاق دینے کاصرف ایک اختیار باقی ہے۔اس کے استعمال کے بعد بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی۔اورعام حالات میں اس سے رجوع بھی نہیں ہوسکےگا۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب