السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فتح پور سے ابو بکر صدیق دریافت کرتے ہیں کہ ایک آدمی کسی لڑکی سے صر ف نکاح ہوا اس نے قبل از رخصتی اسے طلاق دے دی تحریر میں یہ بھی لکھاکہ آئندہ ہمارا آپ سے اور تمہار ہم سے کوئی تعلق نہ ہے اب وہ صلح کرنا چاہتے ہیں جبکہ طلاق کو چھ ماہ گزرچکے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ وہ عام حالات میں دوبارہ اکھٹے نہیں ہوسکتے۔
1۔خاوند زندگی میں وقفہ وقفہ بعد تین طلاقیں دے ڈالے۔ایسی صورت میں مطلقہ عورت سابقہ خاوند کے لئے حرام ہوجاتی ہے۔البتہ تحلیل شرعی کے بعد اکھٹا ہونے کی گنجائش ہے۔(مروجہ حلالہ اس سے مراد نہیں کیونکہ یہ باعث لعنت ہے)
2۔لعان کے بعد میاں بیوی کے درمیان جو جدائی عمل میں آتی ہے۔اس کی وجہ سے وہ آئندہ اکھٹے نہیں ہوسکتے۔کسی صورت میں ان کاباہمی نکاح نہیں ہوسکتا۔
ان دو صورتوں کے علاوہ اور کوئی ایسی صورت نہیں ہے کہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر دوبارہ میاں بیوی کا آپس میں نکاح نہ ہوسکتا ہو۔صورت مسئولہ میں چونکہ نکاح کے بعد قبل از ر خصتی طلاق ہوئی ہے۔لہذا ایسی صورت میں عدت وغیرہ نہیں ہوتی۔ طلاق ملتے ہی نکاح ختم ہوجاتا ہے۔آئندہ جب بھی حالات ساز گار ہوجائیں تو شرعی نکاح کرنے کے بعد میاں بیوی کے طور پر زندگی گزارنے میں شرعاً قباحت نہیں ہے۔اس نئے نکاح کے لئے چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔
1۔عورت کی رضا مندی
2۔سرپرست کی اجازت
3۔حق مہر کا تعین
4۔گواہوں کی موجودگی ۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت نمبر 49 میں اس قسم کی طلاق کازکر فرمایا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب