السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فیصل آباد سے سیف الرحمٰن دریافت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بلاوجہ اپنی بیوی کوطلاق دے دی جبکہ اس کی بیوی اس کے گھر آ باد رہنا چاہتی تھی۔اس کامہر ایک طلائی انگوٹھی تھی۔ جس کے ادا کرنے کی وہ استطاعت رکھتا ہے۔ لیکن اس نے اہل حدیث حضرات سے چندہ اکھٹا کرکے مہر ادا کیا ہے۔یہ شخص موجودہ امام کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھتا بلکہ وہ دوران جماعت بیٹھا رہتاہے۔جب جماعت ہوجاتی ہے تو اپنی الگ نماز پڑھتا ہے ایسے شخص کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلامی قانون کی رو سے عورت کو بلاوجہ یااپنی خودغرضی کی خاطر طلاق دینا جائز نہیں ہے بلکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:'' کہ اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق دینا ہے۔''(ابو دائود)
کیونکہ بلاوجہ طلاق دینے سے شیطان اور اس کے کارندوں ہی کو خوشی ہوسکتی ہے۔ جو میاں بیوی کے درمیان پھوٹ ڈال کر خاندانوں کوتوڑتے ہیں۔اوران میں دشمنی وعداوت پیدا کرتے ہیں۔شریعت اسلامیہ میں طلاق صرف شدید مجبوری کے پیش نظر ہی دی جاسکتی ہے۔صورت مسئولہ میں اگرچہ طلاق بلاوجہ دی گئی ہے۔تاہم واقع ہوچکی ہے۔اگرعورت واقعی بے گناہ اور بے قصور ہے توطلاق دھندہ نے بہت بڑے جرم کاارتکاب کیا ہے عورت کو چاہیے کہ وہ صبرواستقامت کا مظاہرہ کرے۔اللہ کے ہاں اس کے اجر وثواب کو ضائع نہیں کیا جائے گا۔ پھر حق مہر کے متعلق جو طریق کار اختیارکیاگیا ہے۔وہ بھی انتہائی قابل مذمت ہے۔ اس کی ادائیگی کی استطاعت رکھتے ہوئے اہل جماعت کے سامنے دست سوال دراز کیا گیا ہے۔شریعت کی رو سے ایسا کرنا جائز نہیں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:'' کہ جو انسان بلاوجہ کسی سے سوال کرتا ہے قیامت کےدن اس کے چہرے پرگوشت نہیں ہوگا۔''اہل جماعت کو اگر اس کی ڈھٹائی کا علم تھا تو اس کا چندہ اکھٹاکرنابھی باعث تعجب ہے؟ موجود امام کے پیچھے اس کا نماز نہ پڑھنا اپنی نماز کو ضائع کرنا ہے۔ کیوں کہ جماعت کے وقت بلاعذر بیٹھے رہنا اور بعد میں اکیلے نماز پڑھنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ایسے آدمی کو حکمت اوردانائی کے ساتھ سمجھایا جائے اور جوعیوب اس میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی احسن انداز سے اصلاح کی جائے اگر باز آجائے تو بہتر بصورت دیگر اسے اپنے حال پرچھوڑ دیاجائے اللہ اس کے احوال کی اصلاح فرمائے گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب