السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مقروض کا صدقہ کرنا صحیح ہے؟ مقروض سے کون کون سے شرعی حقوق ساقط ہو جاتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صدقہ کرنا ان امور میں سے ہے جن کا شرعاً حکم دیا گیا ہے اور یہ بندگان الٰہی کے ساتھ احسان ہے، جب کہ درست طریقے سے صدقہ کیا گیا ہو۔ صدقے سے انسان کو ثواب ملتا ہے اور قیامت والے دن ہر شخص اپنے صدقے کے سائے میں ہوگااور صدقہ ہرحال میں مقبول ہوتا ہے، خواہ انسان پر قرض ہو یا نہ ہو بشرطیکہ قبولیت کی شرطوں کی مطابق ہو اور وہ یہ کہ صدقہ اللہ عزوجل کے لیے اخلاص کے ساتھ کیا گیا ہو، حلال کمائی سے ہو اور صحیح جگہ پر صدقہ کیا جائے۔ شرعی دلائل کے تقاضے کے مطابق انہی شرائط کے ساتھ صدقہ مقبول ہوگا۔ اس سلسلہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ انسان پر قرض نہ ہو لیکن اگر قرض اس کے سارے مال کے بقدر ہو تو حکمت اور عقل کا تقاضا یہ نہیں کہ انسان صدقہ کرے، جو کہ مستحب ہے واجب نہیں اور قرض کو ترک کر دے جو واجب ہے، اس کو چاہئے پہلے واجب کو ادا کرے پھر صدقہ وخیرات کرے۔ اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو صدقہ کرے اور اس پر اس کے سارے مال کے بقدر قرض ہو۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس کے لیے یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں صاحب قرض کا نقصان ہے اور واجب قرض کی صورت میں اپنے ذمے کو باقی رکھنا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ جائز ہے لیکن خلاف اولیٰ ہے۔ بہرحال جس انسان کے ذمے اس کے اپنے سارے مال کے بقدر قرض ہو، اسے صدقہ نہیں کرنا چاہیے حتیٰ کہ وہ اپنے قرض کو ادا کر دے کیونکہ واجب نفل سے مقدم ہے۔ جہاں تک ان حقوق شرعیہ کا تعلق ہے، جو مقروض کے لیے معاف ہیں، ان میں سے ایک تو حج ہے۔ مقروض انسان پر حج واجب نہیں حتیٰ کہ وہ اپنے قرض کو ادا کر دے۔
زکوٰۃ کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے کہ یہ مقروض سے ساقط ہے یا نہیں؟
بعض اہل علم نے کہا ہے کہ قرض کے مقابل زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی، خواہ مال ظاہر ہو یا ظاہر نہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ قرض کے مقابل زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی بلکہ اسے اپنے سارے مال کی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی، خواہ اس پر قرض ہو، جو نصاب کو کم کرتا ہو۔ بعض نے اس میں فرق کیا ہے کہ اگر مال کا تعلق اموال باطنہ سے ہو جو نظر نہ آتے ہوں یا دیکھے نہ جا سکتے ہوں، مثلاً: نقدی اور سامان تجارت وغیرہ تو قرض کے مقابل مال سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی اور اگر مال کا تعلق اموال ظاہرہ، مثلاً: مویشیوں اور زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے ہو تو زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی۔
میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی، خواہ مال ظاہر ہو یا غیر ظاہر۔ جس کے ہاتھ میں بھی اس قدر مال ہو جس میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اسے اپنے مال کی بہر صورت زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے، خواہ اس کے ذمہ قرض ہو۔ کیونکہ زکوٰۃ مال میں واجب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿خُذ مِن أَمولِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم إِنَّ صَلوتَكَ سَكَنٌ لَهُم وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿١٠٣﴾... سورة التوبة
’’ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو۔ اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجتے ہوئے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
«أَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللّٰهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِی أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ»(صحيح البخاري، الزکاة، باب وجوب الزکاة، ح: ۱۳۹۵ وصحيح مسلم، الايمان، باب الدعاء الی الشهادتين وشرائع الاسلام، ح: ۱۹)
’’ان کو معلوم کرا دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ کو فرض قرار دیا ہے، جو ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘
صحیح بخاری میں یہ حدیث انہی الفاظ کے ساتھ ہے۔ بہرحال کتاب وسنت کی دلیل سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ اور قرض میں تعارض نہیں کیونکہ قرض آدمی کے ذمے واجب ہوا کرتاہے اور زکوٰۃ مال میں واجب ہے، یعنی ہر ایک کے وجوب کا اپنا اپنا مقام ہے، لہٰذا ان میں تعارض اور تصادم نہیں ہے۔ قرض مقروض کے ذمے واجب ہے لیکن زکوٰۃ مال میں واجب ہے، جو اسے ہر حال میں ادا کرنی ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب