سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(344) شادی کے بعد رضاعت ثابت ہونا

  • 11606
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 1078

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ڈجکوٹ سے عبد القدوس لکھتے ہیں کہ میری آج سے پانچ سال قبل شادی ا پنی خالہ ذاد سے ہوئی تھی۔ اور اب ہمارے دو بچے بھی ہیں  مجھے والدہ نے کتنی بار بتایا کہ تیری نانی نے کئی بار تجھے دودھ پلایاتھا اب میں پریشان ہوں کہ ا گر رضاعت ثابت ہوجائے تو تعلقات کیسے ختم کئے جائیں اور بچوں کا کیا بنے  گا۔کتاب وسنت کی روشنی میں میری اس الجھن کودور فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ میں خونی تعلق کی بنا پرجو رشتے حرام ہیں دودھ پینے سے بھی وہ حرام ہوجاتے ہیں۔خونی رشتہ کی وجہ سے حرام ہونے والوں میں بھابھی بھی شامل ہے۔نانی کا دودھ پینے سے خالہ ذاد بہن رضاعی بھانجی بن جاتی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد  گرامی ہے:''دودھ  پینے سے وہ  تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو ولادت یعنی خون سے حرام ہوتے ہیں۔''(صحیح بخاری :کتاب النکاح)

صورت مسئولہ میں اگرسائل نے  واقعی اپنی  نانی کادودھ  پیا ہے۔تو اس کی خالہ ذاد بیوی رضاعی  طور پر اس کی بھانجی بن جاتی ہے۔ جس سے نکاح جائز نہیں ااس لئے فورا اسے الگ کردیاجائے۔اور بچے وغیرہ  والد کے ہیں اور وہ اس کے پاس رہیں گے البتہ  والد سے بھی اس اولاد کے تعلقات استورار رہنے چاہیں اس قسم کاواقعہ خود عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی پیش آیا تھا حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ یان کرتے ہیں کہ میں نے ام یحیٰ بن اھاب سے شادی کرلی شادی کے بعد ایک سیاہ فام عورت نے کہا میں نے تم دونوں میاں بیوی کو دودھ پلایاہے۔ میں نے اسے کہا کہ مجھےاس کا علم نہیں اور تو نے پہلے ہمیں اس قسم کی خبر دی ہے۔ چنانچہ میں نے سواری لی اور فوراً رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلاآیا اور اپنا ماجرا بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ جب وہ عورت اس بات کادعویٰ کرتی ہے۔ تواسے صحیح تسلیم کیاجائے لہذاتم اپنی بیوی  سے الگ ہوجاؤ۔''چنانچہ میں نے مکہ  آتے ہی اپنی بیوی کوچھوڑدیا اور اس نے آگے نکاح کرلیا۔(صحیح بخاری کتاب النکاح)

 حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ   نے لکھاہے کہ پھر اس عورت نے خاوند کے بھائی ظریب بن حارث سے نکاح کرلیاتھا(مقدمہ  فتح الباری)

سوال میں الجھن ضرور ہے کہ اگروالدہ کو اس بات کا علم تھا تو اس نے بوقت نکاح اس کا اظہار کیوں نہ کیا؟لہذا اس بات کی اچھی طرح تحقیق کرلینی چاہیے یا پھر نانی اماں سے اس کی تصدیق کرالی جائے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:359

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ