سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(343) بغیر کسی شرط کے وٹہ سٹہ کرنا

  • 11605
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1051

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عارف  والا سے محمد شفیع لکھتے ہیں کہ دو بھائی جو صاحب اولاد ہیں دونوں کسی سابقہ شرط کےبغیر شرعی  طور پر آپس میں اولاد کی شادیاں کرناچاہیں یعنی ایک بھائی دوسرے کو رشتہ دے گا۔ اور دوسر ا بھائی بھی پہلے کو  رشتہ دے گا۔ لیکن اس کے لئے پہلے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ دو بھائیوں کا کسی  قسم کی سابقہ شرط کے بغیر شرعی طور پرآپس میں اولاد کی شادیاں کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔بلکہ صلح رحمی کی ایک بہترین صورت ہے۔ لیکن عام طور پردیکھا جاتا ہے کہ آبائی رسم ورواج کی پابندی کے لئے ظاہر ی طور پر کسی مسئلہ کے جواز کا سہارا لے لیاجاتا ہے۔ لہذا اس کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ہمارے ہاں بے شمارایسی رسوم ہیں جو شریعت اسلامیہ کے سراسرمنافی ہیں ان میں سے ایک رسم نکاح وٹہ سٹہ بھی ہے۔ جسے عربی زبان میں '' نکاح شغار'' کہاجتا ہے۔ دین اسلام میں ناجائز اور  حرام ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری فرمایا ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:''کہ اسلام میں نکاح وٹہ سٹہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔''(صحیح مسلم حدیث نمبر 3469)

مذکورہ روایت میں ہی شغار کی بایں الفاظ تعریف کی گئی ہے۔کہ ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ تم اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردو میں اپنی بچی کا نکاح تجھ سے کرتا ہوں۔ یہ تعریف ہمارے ہاں رائج نکاح وٹہ سٹہ پر صادق آتی ہے۔ بعض اہل علم کی طرف سے اس قسم کے نکاح کو سندا جواز مہیا کی جاتی ہے۔ کہ وہ وٹہ سٹہ کے نکاح میں اگر مہر رکھ دیاجائے۔ تو صرف شرط رکھنے سے اس قسم کا نکاح''شغار''کی تعریف  میں نہیں آتا۔ کیوں کہ محدثین کرام نے ا س کی تعریف کرتے وقت'' ان کے درمیان مہر نہ ہو'' کے الفاظ زکر کیے ہیں حالانکہ اس قسم کے نکاح کے حرام ہونے کا باعث مہرکا ہونا یا نہ ہونا نہیں  ہے۔بلکہ وہ منفی اورانتقامی جذبات ہیں جو غیر شعوری طور پر اختلافات کے وقت فریقین میں سرایت کرجاتے ہیں۔چونکہ انجام اور نتیجہ کے لہاظ سے اس طرح کا کوئی تبادلہ کوئی مفید چیز نہیں ہے جیسا کہ تجربات اس کی  شھادت دیتے ہیں۔صورت مسئولہ میں ظاہری طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اس کا بھی نتیجہ شغار جیسا ہوتا ہے۔بشرط یہ کہ اسے حیلہ اور بہانہ سے جائز قرار دے لیا ہو اوراختلاف کے وقت  انتقامی جذبات بھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہو اصل دارومدار نیت پر ہے۔اگر اس میں کوئی فتور نہیں تو یقیناً اس  طرح کانکاح باعث خیروبرکت ہے۔ کیوں کہ دونوں بھائی آپس میں مل بیٹھنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ اگر نیت صرف جواز کا حیلہ تلاش کرنا ہے۔تو اس غیر مشروط  تبادلہ نکاح سے پرہیز کیا جائے کیوں کہ مستقبل میں یہ ثمر آور ثابت نہیں ہوگا نکاح کے معاملہ میں انسان کو انتہائی دور اندیشی سے کام لینا چاہیے کیونکہ زندگی کا یہ بندھن صرف  ایک مرتبہ ہوتاہے۔یہ کوئی بجلی کا بلب نہیں ہے  جب ضرورت پڑے تو لگا لیا جائے اور ضرورت پوری ہوجائے تو اتار دیاجائے لہذا ہم لوگوں کو ایسے معاملات نہایت غور وخوض کے بعد پایہ تکمیل تک  پہنچانے چاہئیں اپنی طرف سے اخلاص کے ساتھ کوشش کرکے پھر معاملات اللہ کے حوالے کردیئے جائیں۔(واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:358

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ