السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لیہ سے محمد حنفی لکھتے ہیں۔ کہ میں نے اپنے بیتے کےلئے کسی سے رشتہ طلب کیا اس نے مشروط طور پر رشتہ دیا کہ اس کے بدلے ہمیں بھی رشتہ دو میں نے اپنی چھوٹی بیٹی جس کی عمر دو سال تھی اس کا رشتہ طے کردیا۔ انہوں نے رسم کے طور پر پانی دم کرکے بچی کو پلا دینے کے متعلق کہا جسے میں نے ضائع کردیا جسے میں نے ضائع کردیا بعد میں علماء نے بتایا کہ یہ تووٹہ سٹہ ہے۔ جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا یہ وضاحت سننے کے بعد میں نے اپنی بیٹی کی منگنی ختم کردی اور فریق ثانی کواس کی اطلا ع کردی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا بچی کو وعدہ نکاح کے وقت پانی پلانا رسم نکاح تھی لہذا آپ طلاق کے بغیر اس کاآگے نکاح نہیں کرسکتے اس سلسلہ میں پریشان ہوں بچی جوان ہے اس کا آگے نکاح کرناچاہتا ہوں۔براہ کرم راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہو کہ سوال میں زکر کردہ صورت ایک وٹہ سٹہ کی شکل تھی جس کو ختم کرناضروری تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:'' کہ اسلام میں وٹہ سٹہ کا وجود نہیں ہے۔''(صحیح بخاری)
اس بنا پر منگنی ختم کرنا نہ صرف جائز تھا بلکہ ضروری تھا اس میں شک نہیں کہ منگنی ایک وعدہ ہوتاہے۔ کہ میں اپنی لڑکی کانکاح فلاں سے کردوں گا۔اس وعدے کو پورا کرنا انتہائی ضروری ہے۔بشرط یہ کہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہوصورت مسئولہ میں منگنی کے بعد پتہ چلا کہ یہ تو وٹہ سٹہ کی صورت ہے جو اسلام میں جائز نہیں ۔لہذا ا س وعدہ نکاح کو توڑنا ضروری تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کے متعلق فرمایا ہے'' کہ ا گر کوئی قسم اٹھائے کہ فلاں کام نہیں کروں گا۔بعد میں پتہ چلا کہ اس سے باز رہنا خلاف شرع ہے۔ تو اسے چاہیے کہ قسم کا کفارہ دے اور وہ کام کرے کہ جس کے نہ کرنے کی قسم اٹھائی تھی۔''چونکہ منگنی صرف ایک وعدہ ہے قسم نہیں ہے جس کے ختم کرنے پر اسے کوئی کفارہ ادا کرنا پڑے اسے خلاف شرع سمجھتے ہوئے ختم کردیا گیاہے۔ اس قسم کے خلاف شرع وعدے کرنا بھی شریعت میں درست نہیں ہیں۔ مگر دین سے ناواقف غرض مند لوگ ایسے وعدے کرلیتے ہیں پھر مصیبت میں پڑ جاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ بچیوں کو اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے ان کے حقوق میں ناجائز تصرف نہ کریں منگنی کے وقت پانی وغیرہ پلانے کو ر سم نکاح قرار دینا بھی ایک جاہلانہ رسم ہے۔ جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جو منگنیاں ہوئیں انہیں نکاح نہیں قراردیا گیا بلکہ منگنی کے بعد باقاعدہ نکاح سے انہیں رشتہ ازدواج میں منسلک کیا گیا ہے۔حضرت جلبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے منگنی کی اور بعد میں نکاح ہوا۔(مسند امام احمد)
احادیث میں اس حد تک صراحت ہے۔کہ اگر منگنی کے وقت لفظ نکاح کا بھی استعمال کیاگیا ہے۔تو بھی اسے منگنی ہی سمجھاجائے۔ کیوں کہ نکاح تو ایجاب قبول کانام ہے۔ جو یہاں مفقود ہے۔فریق ثانی کا رد عمل درست نہیں ہے کہ وہ محض ایک رسم کو نکاح قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ان حقائق کے پیش نظرفتویٰ دیا جاتا ہے کہ منگنی صرف ایک وعدہ ہے جو خلاف شرع ہونے کی صورت میں توڑا بھی جاسکتا ہے۔لہذا اس بچی کا نکاح آگے کیا جاسکتا ہے۔شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب