سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(341) نکاح شغار کی حیثیت

  • 11603
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1373

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بہاولنگرسے رحمت اللہ رحیق لکھتے ہیں کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں نکاح شغار  کی شرعی حیثیت بیان کریں ہم اس مسئلہ میں بہت پریشان ہیں۔او ر کئی گھرانوں کاسکون برباد کررکھا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں شریعت سے ناواقفی کی بنا پر  اکثر لوگ آبائی رسم ورواج کے پابند ہیں جن میں سے بعض رسوم شریعت کر سراسر خلاف ہیں ان میں سے ایک نکاح وٹہ سٹہ بھی ہے۔ اس قسم کے نکاح کوعربی زبان میں نکاح شغارکہاجاتا ہے ۔جس کے متعلق اسلام نےحکم امتناعی جاری کیا  ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:'' کہ دین اسلام میں نکاح وٹہ سٹہ کا کوئی وجود نہیں۔''(صحیح مسلم:حدیث نمبر 3468)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے نکاح سے منع فرمایا ہے۔(صحیح بخاری؛کتاب النکاح)

امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح مسلم میں ان احادیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔''نکاح شغار اور اس کا بطلان'' کتب حدیث میں بعض راویان حدیث سے اس کی تفسیر بھی منقول ہے۔حضرت نافع  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں۔'' کہ نکاح شغاربایں طور ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کا نکاح کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی کانکاح اس سے  کرے گا۔درمیان میں حق مہر بھی نہ ہو۔''(صحیح مسلم:حدیث نمبر 3465)

حضرت ابن نمیر کی تعریف میں حق مہروغیرہ کا زکر نہیں ہے مطلق طور پر مشروط نکاح کرنا شغار ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح شغار میں مہر کی قید احترازی نہیں بلکہ اتفاقی ہے۔جس کے ہونے یا نہ ہونے سے حرمت  نکاح شغار متاثر نہیں ہوتی۔اگرچہ بعض اہل علم کیطرف سے یہ نکتہ اٹھایاجاتا ہے۔کہ اگر درمیان میں مہر رکھ دیاجائے تو اس قسم کا نکاح''شغار''کی تعریف میں نہیں آتا حالانکہ اس نکاح کے حرام ہونے کی وجہ وہ منفی اور انتقامی جذبات ہیں جو غیر شعوری طور پراختلافات کے وقت طرفین میں سرایت کرجاتے ہیں جیسا کہ معاشرتی طور پر اس کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے چونکہ انجام اور نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے۔لہذا مہر ہونے یا  نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس کے علاوہ کتب حدیث میں ایک واقعہ منقول ہے۔ کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نے اپنی بیٹی کانکاح عبدالرحمٰن بن حکم سے کردیا اور عبدالرحمٰن بن حکم نے اپنی بیٹی عباس کے عقد میں دے دی اورفریقین نے حق مہر بھی رکھا جب حضرت معاویہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اس کاعلم ہواتو  انہوں نے مدینہ کے گورنر حضرت مروان کولکھا کہ ان دونوں کے نکاح کو کالعدم قرار دے کر ان کے درمیان تفریق کرادی جائے۔یہ وہی شغار ہے۔جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔(ابو دائود کتاب النکاح حدیث نمبر 2075)

بعض اہل علم نے یہاں  نکتہ اٹھایا ہے۔ کہ حضرت امیر معاویہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس نکاح کو اس لئے کالعدم قراردیا تھا۔ کہ فریقین نے اس نکاح کو ہی ایک دوسرے کے لئے حق مہر قرار  دیاتھا۔اور اس کے لئے ابو دائود کی اس روایت میں ایک ضمیر کاسہارا لیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جتنے بھی ابودائودکے متداول نسخے ہیں ان میں اس ضمیر کا وجود نہیں ملتابہرحال اس نکاح وٹہ سٹہ(شغار) کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔لہذا اس سے اجتناب کرنا ہی مومن کی شان ہے۔(واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:356

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ