سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(340) وٹہ سٹہ کی شادی کی حیثیت

  • 11602
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1070

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کراچی سے آمنہ خاتون لکھتی ہیں۔ کہ اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی کی کیاحیثیت ہے؟وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت وسوال واضح ہوکہ اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی ناجائز اور حرام ہے کیوں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے حدیث میں ہے:'' کہ اسلام میں نکاح شغار(وٹہ سٹہ) کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔''(صحیح مسلم کتاب لنکاح)

شغار کی  تعریف یہ ہے کہ آپس میں یوں کہا جائے۔ تو ا پنی لڑکی کی شادی مجھ سے اس شرط پر کردے۔ کہ  میں اپنی لڑکی تیرے ہی نکاح میں  دے دیتا ہوں۔بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں۔کہ اس شرط کے ساتھ ساتھ دونوں لڑکیوں کاکوئی الگ حق مہر مقرر نہ کیاجائے۔

واضح رہے کہ مہر ہونے یا نہ ہونے سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ نتائج و عواقب کےلہاظ س دونوں صورتیں یکساں حکم رکھتی ہیں۔اگر ایک لڑکی کا  گھر برباد ہوتا ہے۔ تو دوسری بھی ظلم وستم کا نشانہ بن جاتی ہے۔قطع نظر کے نکاح کے وقت ان کا الگ الگ مہر مقرر کیاگیا تھا یانہیں۔حضرت امیر معاویہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس طرح کے ایک نکاح کو باطل قرار  دیا تھا۔حالانکہ ان کےدرمیان مہر بھی مقرر تھا۔آ پ نے فرمایا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایاتھا۔(ابو دائود کتاب النکاح باب فی الشغار)

ہمارے نزدیک اس قسم کے نکاح کی تین صورتیں ممکن ہیں:

1۔نکاح کا معاملہ کرتے وقت ہی رشتہ لینے دینے کی شرط کرلی جائے۔یہ صورت بالکل حرام اور ناجائز ہے۔

2۔نکاح کے وقت شرط تو نہیں کی البتہ آثار وقرائن ایسے ہیں کہ شرط کاسا معاملہ ہے انجام کے لہاظ سے یہ بھی شغار ہے اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

3۔نکاح کے وقت شرط بھی نہیں اور نہ آثار وقرائن شرط جیسے ہیں۔اس صورت کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ تبادلہ نکاح محض اتفاقی ہے۔ اس طرح کے نکاح صحابہ کرام رضوان ا للہ عنہم اجمعین  کے دور میں متعدد مرتبہ ہوئے ہیں۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:356

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ