السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا اس میت کا قرض زکوٰۃ سے ادا کیا جا سکتا ہے جس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ابن عبدالبر اور ابوعبید رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا نہ کیا جائے اس پر اجماع ہے لیکن امر واقع یہ ہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ اکثر علماء نے یہی کہا ہے کہ زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا نہ کیا جائے کیونکہ میت تو دار آخرت کی طرف منتقل ہو کر جاچکا ہے اس لئے قرض کی وجہ سے اب اسے وہ ذلت اور رسوائی حاصل نہیں ہوگی جو زندوں کو حاصل ہوتی ہے اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کی رقم سے مردوں کا قرض ادا نہیں فرمایا کرتے تھے اورجب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوحات سے سرفراز فرما دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اموال غنیمت سے قرض ادا فرمایا کرتے تھے، اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا کرنا صحیح نہیں ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میت نے جب لوگوں سے قرض لیا اور وہ اسے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کی طرف سے اسے ادا فرما دے گا اور اگر وہ اسے ضائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، قرض اس کے ذمے باقی رہے گا جو قیامت کے دن اس سے وصول کر لیا جائے گا۔ میرے نزدیک یہ قول زیادہ صحیح ہے کہ زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فرق کیا جائے گا کہ اگر زندہ لوگ فقر یا جہاد یا تاوان وغیرہ کی وجہ سے ضرورت مند ہوں تو پھر زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا نہیں کیا جائے گا اور اگر زندہ لوگ ضرورت مند نہ ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں کہ ہم ایسے فوت شدگان کے قرض کو زکوٰۃ کی رقم سے ادا کر دیں جنہوں نے اپنے پیچھے کوئی مال نہ چھوڑا ہو۔ دونوں اقوال میں سے یہ آخری قول شاید مبنی براعتدال ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب