السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہاڑی سے رضوان اللہ لکھتے ہیں۔کہ ایک آدمی کا کسی ٹیچر لڑکی سے نکاح ہوا وہ اس وقت اس کی تنخواہ وصول کررہا ہے اور کہتا ہے کہ عورت کی آمدنی صرف شوہر کے لئے ہے عورت کو جائیداد بنانے کاشریعت نے حق نہیں دیا ہے کیا یہ صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد بھی عورتوں کے حق ملکیت کوبرقراررکھا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:'' عورتوں کو ان کے حق مہر خوشی سے دیا کرو۔ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے انھیں چھوڑدیں تو اسے زوق شوق سے کھالو۔''(4/النساء:4)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہر کے متعلق عورت کاحق ملکیت ثابت کیا ہے اسی طرح وراثت وغیرہ کے کئی ایک مسائل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کو جائیداد بنانے کاشرعی حق ہے بلکہ بعض احادیث سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض مالدار صحابیات اپنے شوہروں کوزکواۃ بھی دیتی تھی۔چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ اگر میں اپنے خاوند حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مال زکواۃ صرف کروں تو کیا یہ جائز ہے؟اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''ہاں!اس کے لئے دو اجر ہیں۔ایک رشتہ سے حسن سلوک کرنے کا اور دوسرا صدقہ کرنے کا۔''(صحیح بخاری:کتاب الذکواۃ باب الزکواۃ علی الزوج)
اسی طرح حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے بچوں پر مال زکواۃ خرچ کرتی تھیں۔(صحیح بخاری حوالہ مذکورہ)
اندریں حالات بیوی کو شریعت نے یہ حق دیا ہے اگر وہ اپنی تنخواہ الگ رکھنا چاہتی ہے تو اسے یہ حق پہنچتا ہے خاوند کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں زیادتی کامرتکب نہ ہو۔البتہ خاوند کو یہ حق بھی شریعت نے دیا ہے کہ بیوی کی ملازمت اگر حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ رکاوٹ کا باعث ہے۔تو بیوی کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کرسکتا ہے اور بیوی کے لئے اس کے حکم کی تعمیل ضرروی ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب