السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بدین سندھ سے محمد نواز سومرو سوا ل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کا نکاح کسی سے کردیا بوقت نکاح حق مہر کا تعین نہ ہوا ۔چند روز کے بعد لڑکے کے والدین نے خود ہی حق مہر کی رقم مقرر کردی۔نکاح نامے میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا۔ نکاح کے بعد چند وجوہات کے پیش نظر لڑکی اپنے سسرال نہیں گئی۔ اب شرعی لحاظ سے ایسے نکاح کی کیا حیثیت ہے۔اگر نکاح صحیح ہے تو حق مہر کی ادائیگی ضروری ہے یا نہیں؟ اگر لڑکا حق مہر ادا کرنے سے انکار کردے تو اس کا حل کیا ہے۔واضح رہے کہ لڑکے نے اب طلاق دے دی ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مہر اس مال کانام ہے۔جو عورت کے نکاح کے بعد اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات کے عوض دیا جاتا ہے لیکن اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مہرکازکر کئے بغیر اگر نکاح ہوجائے تو وہ شرعاً صحیح اوردرست ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم طلاق دو اپنی بیویوں کو جنھیں تم نے چھوا تک نہیں او ر نہ ہی ان کا حق مہر مقرر کیا ہے۔''(2 /البقرہ:236)
اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسے نکاح کے بعد طلاق دینا جس میں حق مہر مقرر نہ ہوا ہو کوئی گناہ نہیں ہے۔چونکہ طلاق نکاح کے بعد دی جاتی ہے۔اس لئے یہ آیت حق مہر مقرر کیے بغیر نکاح کے جواز کی دلیل ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔اب اگر نکاح کے بعد رخصتی (تعلقات زن وشوئی یا خلوت صحیحہ) کے مراحل بخیر وخوبی سر انجام پاچکے ہیں تو ا س کی دو صورتیں ہیں۔
1۔نکاح سے جو پہلے حق مہر طے پاچکا ہے۔اگراس پر فریقین کا اتفاق ہے۔تو خاوندکے زمہ یہی واجب الادا ہوگا۔
2۔اگر ا س پر اتفاق نہیں ہوا محض یکطرفہ تجویز تھی۔ تو اسے مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ مہر مثل سے مراد امثال واقران(حقیقی بہنوں'پھوپھیوں یا چچا زاد بہنوں وغیرہ) کا مہر ہے۔جو اس عورت کے مثل دوسری عورت کا مقرر ہوا ہو۔اس کے تعین کے لئے ہم مثل عورتوں کی عمر حسن وجمال علم عقل دینداری اور اخلاق وکردار کا لہاظ بھی رکھا جائے گا۔ اگر نکاح کے بعد ر خصتی(تعلقات زن وشو ئی یا خلوت صحیحہ) کے مراحل ابھی تک طے نہیں ہوئے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں:
1۔نکاح سے پہلے طے ہونے والے حق مہر پر اگراتفاق ہے تو طلاق کے بعد اس کا نصف خاوند کے زمہ داجب الادا ہوگا۔(2/البقرہ:237)
2۔اگر حق مہر پر اتفاق نہیں ہوا تو چونکہ رشتہ جوڑنے کے بعد توڑ دینے کی شکل میں عورت کا کچھ نقصان تو ہوا ہے۔اس لئے خاوند کی حیثیت کے مطابق عورت کے اس''نفسیاتی نقصان''کی تلافی ہونا ضروری ہے۔(2/البقرہ:236)
واضح رہے کہ خاوند شرعاً قانوناً اور اخلاقاً مذکورہ حقوق کی ادائیگی کا پابند ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب