السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میاں چنوں سے ع م خرید اری نمبر 1442 لکھتے ہیں کہ مسماۃ "ف" کا اپنے خاوند سے کسی با ت پر جھگڑا ہو ا تو وہ اپنے بیٹے اور بیٹیو ں کو لے کر گھر سے فرا ر ہو گئی پھر اس نے اپنے بیٹے کو ولی بنا کر بھیجتے سے اپنی بیٹی کا نکا ح کر دیا جبکہ حقیقی ولی لڑکی کا با پ مو جو د ہے اس نکا ح کی شر عی حیثیت کیا ہے ۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیو ی کا گھریلو جھگڑے کی وجہ سے اپنے بچو ں کو لے کر گھر سے فرار ہو جا نا انتہا ئی با غیا نہ اقدام ہے حا لا نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می ہے کہ اگر کسی عورت سے اس کا خاو ند نا را ض ہے تو اس کے راضی ہو نے تک فرشتے عورت پر لعنت کر تے رہتے ہیں ۔(صحیح مسلم :النکا ح 1436)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیو ی کے لیے اس کے خاوند کو جنت یا جہنم قرار دیا ہے یعنی اس کی اطا عت با عث جنت اور نا فر ما نا مو جب جہنم ہے ۔(مسند امام احمد: رحمۃ اللہ علیہ ج 4 ص 341)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس با ت کی با یں الفا ظ وضا حت فر ما ئی ہے کہ جب عورت نما ز پا نچ وقت ادا کر تی ہے اور اپنے خا وند کی اطا عت کے ساتھ ساتھ عفت و پا کدا منی اختیا ر کرتی ہے تو قیا مت کے دن اسے اختیا ر دیا جا ئے گا کہ جنت میں جس دروازے سے چا ہے دا خل ہو جائے ۔(مسند امام احمد حدیث نمبر 1661
ان احا دیث کے پیش نظر ہم اس عورت کو نصیحت کر نا ضروری خیا ل کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچو ں کو لے کر اپنے گھر چلی آئے تا کہ دنیا کے ساتھ اس کی آخرت بر با د نہ ہو اس تمہیدی گزارش کے بعد مسئلہ کی وضا حت با یں طو ر پر ہے کہ قرآن و حدیث میں نکا ح کے لیےجو اصول ضوا بط بیا ن ہو ئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کو ئی عورت اپنے سر پر ست کی اجا ز ت کے بغیر نکا ح نہ کر ے اور سر پر ست کی بنیا د قرا بت و رشتہ داری پر ہے جیسے با پ اور بھا ئی وغیرہ نیز قر یبی رشتہ دار کی موجو د گی میں دور کا رشتہ سر پر ست نہیں ہو سکتا کیو ں کہ جو سر پرست با عتبا ر رشتہ جتنا قریب ہو گا اتنا ہی اس کے دل میں اپنے سر پرست کے لیے شفقت و ہمدردی زیا دہ ہو گی اور وہ اس کے مفا دا ت کا زیا د تحفظ کرے گا با پ کو اس معا ملہ میں اولیت اس وجہ سے حا صل ہے کہ اس کی موجود گی میں دوسر ا کو ئی رشتہ دا ر سر پر ست نہیں ہو سکتا اس والد کی اجاز ت کے بغیر نکا ح منعقد نہیں ہو تا حدیث میں ہے کہ جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجا زت کے بغیر نکا ح با طل ہے بے بنیاد اور بے سروپا ہے ولی کے بغیر نکا ح نہیں ہے (مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :6/145)
اسی طرح حضرت ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ہے کہ ولی کے بغیر نکا ح نہیں ہے ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :4/،394
امام حکم اس حدیث کو اپنی مستدرک میں نقل کر نے کے بعدلکھتے ہیں کہ مذکو رہ روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طا لب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ معا ذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو ذرغفا ری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقدار بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالیٰ عنہ جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو ہر یرہ ۃ عمرا ن بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن العا ص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسرو بن مخر مہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مرو ی ہے اسی طرح ازواج مطہرا ت حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس مضمو ن کی روا یا ت صحت کے سا تھ مو جو د ہیں ۔(مستدرک :ج 2ص172)
علا مہ سیو طی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جس رو ایت کو دس صحا بہ کرا م رضوان ا للہ عنہم اجمعین بیا ن کریں وہ مختا ر مذہب کے مطا بق متوا تر شما ر ہو تی ہے ۔(تد ریب الراوی :ج 2ص117)
ان روایا ت کے مطا بق صورت مسئو لہ میں نکا ح ہو ا ہے وہ با طل ہے اس طرح نکا ح کر نے والا جو ڑا گنا ہ کی زندگی بسر کر تا ہے انہیں اللہ کے حضو ر صدق دل سے تو بہ کر نے کے بعد اپنے والد کو اعتما د میں لے کر از سر نکا ح کر نا ہو گا امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ جو امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ان کی مصا لح عبا د پر بڑ ی گہر ی نظر ہو تی ہے اس کے ساتھ سا تھ استدالا ل میں وہ نصوص کا پہلو بھی انتہا ئی مضبو ط رکھتے ہیں انہو ں نے زیر بحث کے متعلق ایک عنو ان با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے "جس شخص کا یہ مو قف ہے کہ ولی کے بغیر نکا ح نہیں ہو تا ۔پھر ایک دوسرا با ب قا ئم کرتے ہیں ۔کو ئی با پ یا رشتہ دار کسی کنوار ی یا شو ہر دیدہ کا نکا ح اس کی رضا کے بغیر نہ کر ے ۔ ان دو نو ں بوا ب کا منشا یہ ہے کہ نہ تو عورت مطلق العنان ہے کہ وہ اپنی مر ضی سے جہا ں چا ہے نکا ح کر ے اور نہ ہی وہ اس قد ر مقہو ر و مجبو ر ہے کہ اس کا سر پر ست جہا ں چا ہے جس سے چا ہے عقد کر دے بلکہ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مز ید وضا حت کرتے ہو ئے ایک عنو ان اس قا ئم ہے اگر کسی نے اپنی بیٹی کا نکا ح اس کی رضا مندی کے بغیر کر دیا تو یہ نکا ح مر دود ہے در حقیقت شریعت اعتدال کو قا ئم رکھنا چا ہتی ہے تو نہ سر پر ست کو اتنے وسیع اختیا را ت حا صل ہیں کہ وہ اپنی بہن یا بیٹی کی مر ضی کے بغیر جہا ں چا ہے اس کا نکاح کر دے اور نہ ہی عورت کو اس قدر کھلی آزادی دی ہے کہ وہ از خو د سر پر ست کی اجا ز ت کے بغیر نکا ح کر کے اپنے خا ندا ن کی عزت وآبر و کو خا ک میں ملا دے ہا ں اگر با پ کے متعلق با و ثو ق ذرا یع سے پتہ چل جا ئے کہ وہ اپنے زیر سر پر ست کے لیے مہر و وفا کے جذبا ت سے عا ری ہے یا اس کے مفا دا ت کا محا فظ نہیں ہے تو وہ خو د بخو د حق ولایت سے محروم ہو جا تا ہے حدیث میں اس کی وضا حت مو جو د ہے چنانچہ بعض روایا ت میں ولی مر شد کے الفا ظ ملتے ہیں ۔(بیہقی:ج7ص124)
جس کا مطلب یہ ہے کہ جو سر پر ست ہمدردی کے جذبا ت سے سر شا ر ہو وہی فریضہ نکا ح کی اجا ز ت کا حق دا ر ہے بہر حا ل صورت مسئولہ میں بیان کر دہ نکا ح سر ے سے منعقد نہیں ہو ا کیو ں کہ حقیقی سر پر ست کی اجا ز ت کے بغیر ہو ا ہے اور اپنی بچی کے متعلق ہمدردی کے جذبا ت بھی رکھتا ہے ۔(واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب