سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(325) ایک نکاح پر دوسرا نکاح پڑھانا

  • 11575
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1172

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ٹیکسلا سے ڈا کٹر  محمود لکھتے ہیں  کہ ایک  امام  مسجد  پیسے  کے لا لچ  میں آکر  ایک نکا ح  شدہ لڑکی کا آگے  نکاح  پڑھا دیتا ہے حالانکہ  اسے بتا دیا  گیا تھا  کہ اس  کا نکا ح  پہلے ہو چکا ہے  اور  وہا ں سے طلا ق نہیں لی  ہے آپ کسی دوسر ے شخص سے اس کا نکا ح  نہ پڑھیں  اب دریا فت طلب  امر یہ ہے کہ اس طرح  نکا ح  پڑھا  دینا  شرعاً کیا حیثیت  رکھتا ہے ؟کیا ایسا کر نے سے امام کا اپنا  نکا ح بر قرار   رہتا ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال  واضح ہو کہ  ایک شادی شدہ عورت  کا نکا ح  کسی دوسر ے  سے نہیں ہو سکتا جب کہ اس کے خا و ند  نے اسے  طلا ق نہ دی ہو  قرآن پا ک میں اوضح  طو ر پر یہ ہدا یت  مو جو د  ہے ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :" شو ہر  والی  عورتیں  بھی تم  پر حرا م  ہیں ۔(4/النسا ء :24)

اس واضح  ہدا یت کے با وجو د  اگر  کو ئی فرد دانستہ  طو ر پر  ایک شا دی  شدہ  عورت کا آگے نکا ح  پڑھا دیتا ہے  تو وہ شر یعت  اسلا میہ  کی حرمت  کو پامال  کر تا ہے اس طرح  وہ شخص  بھی مجرم  ہے  جو جا نتے  بو جھتے  ہو ئے  ایسی  عورت سے نکا ح  کر تا ہے  اگر  نکا ح  خواں  نے   نا دانستہ  طور پر ایسا کیا ہے تو پھر  اس نے انتہا ئی بے احتیاطی  کا ثبو ت  دیا ہے  بہر حا ل  یہ نکا ح   نہیں ہو ا  اسلا می  ضا بطے  کے مطا بق ان میں فو راً تفریق  کرا دی  جا ئے ۔صورت مسئو لہ میں اس با ت کی وضا حت  مو جو د ہے کہ نکا ح خو اں کو پہلے بتا دیا گیا تھا  اس کے  با و جو د اس  نے نکا ح پڑھا  کر بڑی نا ز یبا حرکت  کا ثبو ت دیا ہے  جس پر اللہ کے حضو ر  اس کا ضرور موا خذہ  ہو گا  لیکن  اس کا یہ جر م  اس  کے نکا ح پر اثر اندا ز  نہیں  ہو گا شریعت اسلا میہ کی روسے  امام  کسی  ایسے  شخص  کو مقرر  کر نا  چا ہیے  جو معا شرہ میں بہترین  مقا م  اور نیک  شہرت  کا حا مل  ہو ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد  گرا می  ہے :" کہ اپنے  میں سے  بہتر  افراد  کو امامت  کے لیے  منتخب  کرو ۔(بیہقی :3/90)

لہذا  اس قسم  کےا مام کو تو بہ  کی تلقین  کر نی چا ہیے  اگر  تو بہ کر لے اور خود  معقو ل شر یف ہو تو اس سے در گز ر  کر تے ہو ئے  اسے امامت  پر بحال  رکھا  جا ئے  لیکن اگر  وہ اپنے  جر م  پر اصرار  کر تا ہے  اور اللہ  کے حضو ر  اپنی تو بہ  کا نذرانہ  پیش  نہیں کرتا  تو ایسے شخص کو امامت  سے فو راً معزو ل  کر دینا  چا ہیے  تا کہ  منصب  امامت  کی تو ہین  نہ  ہو ۔(واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:344

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ