السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ضلع قصور سے حا فظ زکر یا دریا فت کر تے ہیں کہ با پ کی عد م مو جو د گی میں اس کی رضا کے بغیر عدا لتی نکا ح کی شر عاً کیا حیثیت ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ شریعت اسلا میہ میں عورت کو بذا ت خو د اپنا نکا ح کر نے کی اجا زت نہیں بلکہ مر د عورت کے درمیان زند گی بسر کر نے کے معا ہد ہ (نکا ح ) میں ولی کا ہو نا ضروری قرار دیا گیا ہے سر پر ست کا اولین فریضہ یہ ہے کہ پہلے وہ لڑکی کی رضا مندی حاصل کر لے پھر کسی مر د سے اس کی شاد ی کے متعلق با ت چیت شروع کر ے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می ہے :" کہ سر پر ست کے بغیر کو ئی نکا ح نہیں ہوتا ۔(ترمذی:ابو داؤد : کتا ب النکا ح )
اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو نکا ح سر پر ست کی مر ضی کے بغیر ہو اس کی شر عاً کو ئی حیثیت نہیں ہے یعنی ایسا نکا ح سر ے سے ہو تا ہی نہیں ہے اس ضابطہ کی خلا ف ورزی کر نے والے تمام عمر بد کا ر ی کرتے ہیں اگر سر پر ست غلط جگہ پر اپنی بیٹی کی شا دی کر نا چا ہتا ہے تو حق ولایت خو د بخو د دوسرے قریبی رشتے دار کی طرف منتقل ہو جا تا ہے اگر تمام سر پرست کسی غلط جگہ پر شا دی کے لیے اتفا ق کر لیں (اگرچہ ایسا بہت کم ہو تا ہے ) تو عدالتی چا رہ جو ئی کی جا سکتی ہے اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچےکہ واقعی تمام سر پر ست نکا ح کے لیے کسی غلط کار انتخا ب کیے ہو ئے ہیں جج کی سر پر ستی میں عدا لتی نکا ح کیا جا سکتا ہے لیکن اگر با پ یا کو ئی دوسرا سر پر ست صحیح جگہ پر رشتہ کر نا چا ہتا ہے اور لڑکی وہا ں آما دہ نہیں یا غلط کا ر ہو نے کی وجہ سے کسی ایسی جگہ رشتہ کرنا چا ہتی ہے جو خا ندان کے لیے با عث ننگ دعا رہے تو ان حا لا ت میں عدالتی نکا ح صحیح نہیں ہو گا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب