السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نور پورتھل سے پرو فیسر نو ا ب دین کلیر الکھتے ہیں کہ ایک مر د کسی عورت کے ساتھ نا جا ئز تعلقا ت تھے اس نے اس فعل بد سے تو بہ کر نے کے بعد اس عورت کی لڑکی سے نکا ح کر لیا قرآن و حد یث کی رو سے آیا یہ نکاح صحیح ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئو لہ کے متعلق علما ئے امت کا ختلا ف ہے اکثر اہل علم کی را ئے کے مطا بق وہ صنفی تعلقات حر مت کا با عث ہو تے ہیں جو شر عی نکا ح کے بعد قا ئم کئے جائیں گے جبکہ کچھ علما کا خیا ل ہے کہ شرعی غیر شر عی سے قطع نظر مطلق طو ر پر کسی عورت سے صنفی تعلقات قا ئم کر نا اس عورت کی ما ں اور بیٹی سے نکا ح کر نے میں رکا و ٹ کا باعث ہے احنا ف نے مؤخر الذ کر مو قف کو اختیا ر کیا ہے لیکن جمہو ر علما نے ان سے اتفا ق نہیں کیا بلکہ ان کے ہا ں نا جا ئز تعلقا ت کسی قسم کی حر مت کا با عث نہیں بنتے مثلاً دو بہنو ں سے بیک وقت نکا ح کر نا جائز ہے کیا کسی عورت سے نکا ح کر نے کے بعد اس کی بہن سے بد کا ری کرنا رشتہ ازدواج کے انقطا ع کا با عث ہو سکتا ہے ہر گز نہیں چنانچہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں کہ جب کو ئی اپنی سا لی سے زنا کر تا ہے تو اس کی بیو ی اس پر حرا م نہیں ہو گی ۔(صحیح بخا ری تعلیقاً)
اسی طرح کو ئی آدمی اپنی بیو ی کی والد ہ سے نا جا ئز تعلقا ت استوار کر لیتا ہے تو اس کی بیو ی اس پر حرام نہیں ہو گی اس کے متعلق بھی حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتوی یہ ہے کہ اس شخص نے بیک وقت دو حر متو ں کو پا ما ل ضرور کیا ہے لیکن اس کی بیو ی اس پر حرا م نہیں ہو گی ۔(بیہقی ۔7/68)
اس کی سند کے متعلق علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ شیخین کی شر ط کے مطابق ہے (ارواء الغلیل:6/288
حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بر عکس بھی فتو ی منقو ل ہے جس کے متعلق امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیا ن کر نے والے راوی ابو نصر کا سما ع حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثا بت نہیں ہے ۔(صحیح بخا ری :کتا ب النکا ح )
اس مسئلہ کے متعلق ایک روایت بھی بیا ن کی جا تی ہے کہ جس نے کسی عورت کی شر مگا ہ کو دیکھ لیا اس عورت کی ما ں اور بیٹی دیکھنے والے پر حرام ہو جا تی ہے ۔(تہفیم القرآن :1/337
لیکن حا فظہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس رو ایت پر تبصرہ کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی مجہو ل ہے جس کی بنا پر یہ روایت قا بل قبو ل نہیں ہے ۔(فتح البا ر ی :9/156)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کی سند میں انقطا ع جہا لت اور ضعف ہے ۔(بیہقی :7/170)
قرآن کر یم نے جس حر مت مصا ہر ت کا ذکر کیا ہے اس سے وہ رشتہ مرا د ہے جو نکا ح صحیح کے بعد عمل میں آتا ہے محض ز نا سے مصا ہر ت (سسرا لی رشتہ ) ثا بت کرنا سینہ زوری ہے کیو ں کہ اس قسم کی بد کا ری سے حق مہر عدت اور ورا ثت وغیرہ کا اجزاء اگر نہیں ہو تا تو اس سے رشتہ مصا ہر ت کیسے ثا بت ہو سکتا ہے جو حرمت کا با عث ہو بلا شبہ زنا بہت بڑا فو جد اری جر م ہے لیکن حرام جر م کسی حلا ل رشتہ پر انداز نہیں ہو تا چنانچہ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک ایسے آدمی کے متعلق پو چھا گیا جس نے کسی عورت سے بدکاری کی تھی کیا وہ اس عورت کی ما ں سے نکا ح کر سکتا ہے تو انہو ں نے جواب دیا کہ حرا م جر م کسی حلال کو حرا م نہیں کر سکتا ۔(فتح البا ر ی :9/157)
اسی طرح امام زہر ی رحمۃ اللہ علیہ سے پو چھا گیا کہ اگر کو ئی آدمی کسی عورت سے بد کا ری کر تا ہے تو کیا اس عورت کی لڑکی سے نکا ح ہو سکتا ہے۔تو انہوں نے بعض اہل علم کے حو الہ سے فر ما یا کہ اللہ تعا لیٰ کسی حرام جر م کی بنا پر حلال کو خرا ب نہیں کر تا (بیہقی :7/169)
امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ ان تینو ں بزرگو ں کے متعلق فر ما تے ہیں کہ انہو ں نے ( بد کا ر ی کے بعد ) عورت کی ما ں سے اور بیٹی سے نکا ح کو جا ئز قرار دیا ہے ۔(صحیح بخا ری : کتا ب النکا ح )
قرآن کر یم کے مطا لعہ سے بھی یہی معلو م ہو تا ہے کہ اس قسم کے اندیشہ ہا ئے دو ر درازبے کا ر ہیں کیو ں کہ اللہ تعا لیٰ نے نسبی سسرا لی اور رضا عی محر ما ت بیا ن کر نے کے بعد فر ما یا ہے کہ ان کے علا وہ تمام رشتے تمہا رے لیے حلا ل ہیں جب قر آن کر یم نے اس زنا کو مصاہرت میں شا مل نہیں کیا ہے تو ہمیں اس تکلف میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے لہذا صورت مسئو لہ میں آدمی کا نکا ح صحیح البتہ اسے اللہ تعالیٰ سے اپنے جر م شنیع کی معا فی ما نگنا اور صدق دل سے تو بہ و استغفا ر کر نا انتہائی ضروری ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب