السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ذوالفقا ر بذ ریعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ ایک لڑکے نے کسی کسی لڑکی سے نا جا ئز تعلقا ت استوا ر کئے جس کے نتیجہ میں نا جا ئز حمل قرار پا گیا ان کے والدین کو اس حرکت کا علم تھااب حمل کو ضا ئع کر کے لڑکے اور لڑکی کے اصرار پر ان کا نکا ح کر دیا گیا ہے تا کہ عدا لت کی گر فت میں آ سکیں واضح رہے کہ نکا ح دونوں کے والدین کی اجا زت اور رضا مند ی سے ہو ا ہے کیا ایسا نکا ح شرعاً جا ئز ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں جہا ں والدین کے حقوق بیا ن کیے گئے ہیں وہاں ان کے فرا ئض وواجبا ت کی بھی نشا ندہی کی گئی ہے انہیں اس با ت کا پابند کیا گیا ہے کہ اپنی اولا د کی صحیح تعلیم و تربیت کا بند و بست کر یں اپنا گھر یلو ما حو ل صا ف و ستھرا اور پا کیزہ رکھیں معا شرتی برا ئیو ں کے سلسلہ میں اپنی اولا د کی کڑی نگرا نی کریں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے "دیو ث " پر لعنت فر ما ئی ہے اور اس پر جنت حرا م ہو نے و عید سنا ئی ہے جو اپنے گھر میں برا ئی دیکھ کر اسے ٹھنڈے پیٹ برداشت کر لیتا ہے لڑکیو ں کے متعلق تو خا ص ہدا یت ہے کہ جو نہی منا سب رشتہ ملے ان کا نکا ح کر نے میں دیر نہ کی جا ئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ وصیت فر ما ئی تھی کہ تین کا مو ں میں دیر نہ کر نا ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب لڑکی کے لیے منا سب رشتہ مل جا ئے تو اس کا نکا ح کرنے میں لیت ولعل سے کا م نہیں لینا چا ہیے حدیث میں یہ بھی ہے کہ اخلا قی اور دینی طو ر پر منا سب رشتہ ملنے کے با و جو د اگر کو ئی "بلند معیا ر " کی تلاش میں دیر کر تا ہے تو وہا ں ضرور فتنہ فسا د رو نما ہو گا صورت مسئولہ میں ہم اس حقیقت کا نما یا ں طو ر پر مشا ہدہ کر تے ہیں کہ والدین کو اولا د کی اس حرکت شنیعہ کا علم تھا اس کے با و جو د خا مو ش تماشا ئی کی حیثیت اختیا ر کیے ہو ئے ہیں آخر اس بد کا ری پر نو بت یکبا ر نہیں پہنچ جاتی بلکہ اس سے پہلے کچھ مقد ما ت اور ابتدا ئی محر کا ت ہو تے ہیں بد کاری کے را ستہ کی طرف لے جا تے ہیں اس مقا م پر ہما را سوال یہ ہے کہ بد کار ی کے مقد ما ت محر کا ت اور اسباب کے سد باب کے لیے والدین نے کیا کردار سر انجا م دیا ہے قرآن پا ک نے نہ صرف زنا سے رو کا ہے بلکہ اس کے ابتدائی محر کا ت کا بھی راستہ بند کیا ہے اور ان تمام شر مناک افعا ل سے منع کیا ہے جو بد کا ری کا سبب بن سکتے ہیں ان ابتدا ئی گزارشا ت کے بعد ہم صورت مسئو لہ کا جا ئز ہ لیتے ہیں کہ صفا ئی کے بعد والدین کی رضا مندی سے نکا ح ہو ا ہے وہ شر عاً درست اور جائز ہے اب انہیں چا ہیے کہ اللہ کے حضو ر نہا یت عا جزی اور ندامت کے جذبا ت سے تو بہ کریں اور آیندہ اس قسم کی نازیبا حرکا ت سے اجتنا ب کر نے کا عز م کر یں و گر نہ قرآن مجید کی روسے یہ بھی صحیح ہے بد کا ر مرد نا ہنجا ر عورت سے ہی نکا ح کر تا ہے ،(24/النو ر :3)
پھر اس سلسلہ میں جن مشکلا ت و مصائب کا سامنا کر نا پڑے گا وہ بہت سنگین ہیں اس لیے بہتر ہے کہ تو بہ کر کے اپنی آیندہ زند گی کو پا کیزہ کریں اور خو ش اسلوبی سے بقیہ ایا م ھزارنے کا عز م رکھیں تو بہ کر نے سے سا بقہ گناہ نہ صرف معا ف ہو جا تے ہیں بلکہ اگر اخلا ص ہو تو یہ پہلے گنا ہ نیکیو ں میں بدل جا تے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی وضاحت مو جو د ہے (25/الفرقا ن : 70)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب