السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جدہ سے کسی سا ئل نے ایک طو یل سوال بذریعہ ای میل ارسال کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ میر ے دو بیٹے ہیں اور دو بیٹیا ں ہیں میں اپنی زند گی میں ان تما م کی شا دیا ں کر کے ان کے حقو ق سے فا ر غ ہو چکا ہوں اب بڑے لڑکے نے میر ے سا تھ محا ذ آرا ئی شروع کر دی ہے میری بیو ی بھی اس گستا خ اور نا فر ما ن بیٹے کی ہم نو اہے اور میر ی خدمت سے انکا ر ی ہے چھو ٹا بیٹا میرے سا تھ ہے میر ے پا س کچھ جائیداد با قی ہے بچیا ں اپنی خو شی سے میر ے چھو ٹے بیٹے کے حق سے دستبردار ہو چکی ہیں اب میں اپنے نا فر ما ن بیٹے کو اپنی جا ئیداد سے محروم کر نا چا ہتا ہو ں کیا میں شرعاً ایسا کر سکتا ہوں نیز ان حا لا ت میں جبکہ میری بیو ی نے میر ا سا چھوڑ دیا ہے کیا میں اسے طلا ق دے سکتا ہو ں مجھے قیا مت کے دن مواخذ ہ تو نہیں ہو گا کتا ب و سنت کی روشنی میں میری را ہنما ئی فر ما ئیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہے کہ بلا شبہ اولا د کا والدین کے ساتھ اچھا بر تا ؤ نہ کر نا اور ان کا گستا خ و نا فر ما ن ہو نا کبیرہ گنا ہ ہے حدیث کے مطا بق قیامت کے دن اس قسم کے نا فر ما ن اور گستا خ بچے اللہ تعالیٰ کی نظر ر حمت سے محروم ہو ں گے اور انہیں کسی بھی صورت میں پا کیزہ قرار نہیں دیا جائے گا بلکہ انہیں اس جر م کی پا دا ش میں اللہ کے ہا ں درد نا ک عذاب سے دو چا ر ہو نا پڑے گا لیکن ان حا لا ت کے با و جو د والد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی جا ئیدا د سے محض نا فر ما ن اور گستا خ ہو نے کی وجہ سے کسی کو محروم کر دے جا ئیداد سے محرومی کے اسباب شریعت نے متعین کر دئیے ہیں مثلا ً:کفر قتل ارتد ادوغیرہ ان میں اولا د کا نا فرمان یا گستا خ ہو نا کو ئی ایسا سبب نہیں ہے جسے بنیا د بنا کر اسے اپنی جائیداد سے محروم کیا جا سکے ۔قرآن کر یم نے :
﴿يوصيكُمُ اللَّـهُ فى أَولـٰدِكُم...﴿١١﴾... سورةالنساء
فر ما کر ہر قسم کی اولا د کو ضا بطہ میرا ث میں شا مل کیاہے البتہ جو اولا د نص قطعی سے اس ضا بطہ سے متصادم ہو گی اسے خا ر ج قرار دیا جا ئے گاجیسا کہ ہم نے پہلے اشا رہ کیا ہے ضا بطہ میرا ث بیا ن کر نے کے لیے اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے :"(ضا بطہ میرا ث پر عمل کیا جا ئے ) جبکہ وصیت جو کر دی گئی ہے اسے پو را کیا جا ئے اور قرض جو میت کے ذمہ ہے اس کی بھی ادا ئیگی کر دی جا ئے بشر طیکہ وہ ضررر ساں نہ ہو ۔(4/النسا ء 12)
اس مقا م پر مفسر ین نے لکھا ہے کہ وصیت میں ضرر رسا نی یہ ہے کہ ایسے طو ر پر وصیت کی جا ئے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقو ق تلف ہو تے ہو ں یا کو ئی ایسی چا ل چلے جس سے مقصود اصل حقداروں کو محرو م کر نا ہو حدیث میں ہے ۔(بیہقی ) اس بنا پر نا فر ما نی اور گستا خی جیسے انتہا ئی سنگین جر م کے با و جو د اولا د کو اپنی جا ئیادا سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحا بی نے اپنے کسی بچے کو ایک غلا م عطیہ کے طو ر پر دیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گو ا ہ بنا نا چا ہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ :تو نے سب بچو ں کو ایک ایک غلا م دیا ہے "صحا بی نے عرض کیا کہ نہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" اللہ سے ڈرو اور اپنی اولا د کے معا ملہ میں عدل و انصا ف سے کا م لو ۔"(صحیح بخا ری الحیۃ 258)
بعض روایا ت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" اپنی اولا د کے درمیان مسا و ات کیا کرو ۔"(بیہقی :کتا ب الحبا ت )
اگر چہ بعض علما ء نے یہ گنجا ئش نکا لی ہے کہ با پ اولا د کے مخصوص حالات کے پیش نظر تقسیم میں تفا دت کر سکتا ہے مثلاً ایک لڑ کا معذور اپاہج یا بیما ر ہے یا وہ طا لب علم میں مصرو ف ہے لیکن انہو ں نے ایسے حالات میں بھی دوسر ے بھا ئیوں کی رضا مندی کو ضروری قرار دیا ہے حافظہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :" کہ با پ کو ئی ایسا اقدام نہ کر ے جو بھائیوں کے در میا ن دشمنی اور عداوت کا با عث ہو ا ور وہ اس کے کسی اقدام سے اس کی نا فر ما نی کا با عث بنیں ۔صورت مسئولہ میں بھی حالات کچھ اس قسم کے ہیں کہ خرا بی کی اصل وجہ یہی ہے کہ والد بڑے لڑکے کو محرو م کر نا چا ہتا ہے اگر اس نے بڑے لڑکے کو کلیۃ محروم کر دیا تو اس سے مز ید بگا ڑ ہو گا ممکن ہے کہ یہ بگا ڑ چھو ٹے بیٹے اور خو د با پ کے لیے زند گی اور مو ت کا مسئلہ بن جا ئے حا لا ت کا تقاضا یہی ہے کہ باپ فر ما نبردار اور نا فر ما ن کی تمیز کیے بغیر اپنی اولا د میں مسا وا ت قائم رکھے شا ید ایسا کر نے سے نفرت و کد ورت کی آگ بھسم ہو جا ئے اور با پ کی طرف سے عد ل و انصاف پر مبنی فراخدلی آپس میں د لو ں کو ملا دینے کا با عث ہو ممکن ہے کہ اس انصا ف پسندی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کو ئی اتفاق کی صورت پیدا کر دے ۔
سوال۔ کا دوسرا حصہ نا فر ما ن بیوی کو طلا ق دینے سے متعلق ہے ہما رے نز دیک ایسے معا ملا ت میں با زی سے کا م نہیں لینا چا ہیے طلا ق دینا اگرچہ مبا ح ہے لیکن اللہ تعا لیٰ کے ہا ں ایک نا پسند یدہ عمل بھی ہے اگر حا لا ت ایسے ہو ں کہ نبا ہ کی کو ئی صورت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے خا و ند کو اختیا ر دیا ہے کہ وہ اپنی نا فر ما ن بیو ی کو طلا ق دے کر اپنی زو جیت سے الگ کر دے تا کہ اسے ذہنی کو فت سے نجا ت مل جا ئے عین ممکن ہے کہ بیو ی اس لیے خدمت سے راہ فرار اختیا ر کر چکی ہو کہ وہ او لا د کے در میا ن مسا وات اور برابری دیکھنا چا ہتی ہو لیکن خا و ند گستا خ اور نا فر ما ن اولا د کو محروم کر دینے پر تلا ہو ا ہو امید ہے کہ اولا د کے درمیان برابری کی تقسیم کر نے پر بیو ی بھی فر ما نبردار اور خدمت گزار بن جا ئے بہر حا ل ہمیں اولا د کے معا ملہ میں اپنے رویے پر نظر ثا نی کر نا ہو گی اور اس سلسلہ میں روا رکھی جا نے والی زیا دتی اور نا ہمواری کو ختم کر نا ہو گا ۔(واللہ اعلم با لصواب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب