السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تحصیل دینہ سے چوہدری محمد غیاث خریداری نمبر 6117 لکھتے ہیں۔کہ اگر والدین اپنی اولاد کو کسی جائیداد کے متعلق وصیت کرجائیں اور اس میں بے انصافی اور حق تلفی کی گئی ہو اولاد نافرمانی سے بچنے کے لے اسے قبول کرلے تو کیا جن بچوں پر زیادتی ہوئی ہے۔وہ بذریعہ عدالت یا پنچائیت اس کی تلافی کا مطالبہ کرسکتے ہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے ہاں عام طور پر وصیت کے متعلق افراط وتفریط سے کام لیا جاتا ہے۔اس سلسلہ میں بیشتر اوقات یہ کوتاہی دیکھنے میں آتی ہے۔کہ جو چیزیں وصیت کے قابل ہوتی ہیں۔انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔:''کہ ایک مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی قابل وصیت کام کے متعلق وصیت کرنا چاہتا ہو پھر دو رات بھی اس کے بغیر گزار دے یعنی ا س کے پاس ہر وقت وصیت لکھی ہوناچاہیے۔''(صحیح بخاری :الوصیۃ2738)
چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر وقت ا پنی تحریری وصیت اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔اور وصیت کے متعلق افراط بایں طور کیا جاتا ہے کہ جن کے ورثاء کےلئے وصیت ناجائز ہوتی ہے۔ان کے لئے وصیت کابندوبست کردیا جاتا ہے۔یاجن کے لئے وصیت کرنا جائز ہے ان کے لئے شریعت کی قائم کردہ حد سے زیادہ وصیت کردی جاتی ہے یا پھر وصیت بےانصافی اور ظلم پر مبنی ہوتی ہے پھر لواحقین اس قسم کی ظلم پر مبنی وصیت کو ایسی پختہ لکیر خیال کرتے ہیں جسے مٹانا اس میں ترمیم کرنا ان کے ہاں کبیرہ گناہ ہے حالانکہ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی طرف سے جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ رکھتا ہو اگر وہ آپس میں ان کی اصلاح کردے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔''(2/البقرہ :182)
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غلط وصایا کی اصلاح فرمائی ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک انصاری کی کل جائیداد چھ غلام تھے اس نے وصیت کے زریعہ انہیں آذاد کردیا۔اس کے مرنے اور کفن دفن کے بعد اس کے ورثاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حقیقت حال سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے مرنے والے کو سخت بر ا بھلا کہا پھر اس کی وصیت کو کالعدم کرتے ہوئے ان چھ غلاموں کے متعلق قرعہ اندازی کی چھ کا ایک تہائی یعنی دو غلام آزاد کردیئے اور باقی چار ورثاء کے حوالے فرماکر ان کے نقصان کی تلافی کردی ۔(صحیح مسلم :الایمان 1668)
دیگر روایات میں اس کے متعلق قول شدید کی وضاحت بھی ہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کہ اگر ہمیں ا س کی حرکت کا پہلے علم ہوتا تو ہم اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے''(مسند امام احمد :ج4 ص443)
بلکہ ایک روایت میں ہے:'' کہ ہم اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرتے۔''(سنن ابی دائود :العتق 3958)
ان احادیث کے پیش نظر ہمیں وصیت کے معاملہ میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔صورت مسئولہ میں وصیت کے متعلق جو کوتاہی کی گئی ہے۔لواحقین کو چاہیے کہ پنچائیتی سطح پرا س کی اصلاح کی جائے تاکہ مرحوم کی اخروی باز پرس سے نجات ملے۔ناجائز وصیت کی اصلاح کرنا ضروری ہے اور یہ قرآن کریم کا ایک اہم ضابطہ ہے جس میں کوتاہی نہیں کرتا چاہیے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب