سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(353) میت کے گھر قرآن خوانی کرنا کیسا ہے؟

  • 1155
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 2337

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض ملکوں میں رواج ہے کہ جب کوئی انسان فوت ہو جاتاہے تو اس کے گھر میں بلند آواز سے قرآنی خوانی کی جاتی ہے یا گھر میں ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے سے تلاوت کی کیسٹیں سنائی جاتی ہیں، اس عمل کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

یہ عمل بلا شک بدعت ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے عہد میں اس کا رواج نہ تھا۔ قرآن کریم سے یقینا غم و فکر دور ہوتے ہیں جب انسان خود پڑھے نہ کہ لاؤڈ سپیکروں سے بلند آواز سے پڑھا جائے جسے ہرایک حتیٰ کہ لہو ولعب میں مبتلا اور آلات موسیقی سے دل بہلانے والے بھی سنیں، وہ گویا کہ بیک وقت قرآن بھی سن رہے ہوتے ہیں اور موسیقی بھی۔ اس طرح گویاکہ یہ لوگ قرآن مجید کے ساتھ بیہودگی کا معاملہ کرتے ہیں اور اس کا استہزاء ومذاق اڑاتے ہیں اسی طرح میت کے گھر میں تعزیت کے لیے آنے والوں کے لیے جمع ہونا بھی ان ہی امور میں سے ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں جس کا نام ونشان تک نہ تھا حتیٰ کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ عمل بدعت ہے، اس  بنیادپرہماری رائے میں اہل میت کو تعزیت کے لیے آنے والوں کے استقبال کے لیے جمع نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں اپنے دروازے بند کر لینے چاہئیں، البتہ اگر کوئی بازار میں ملے یا جاننے والوں میں سے کوئی اس ملاقات کے اہتمام کے بغیر آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ہر آنے جانے والے کے استقبال کے لیے دروازوں کو کھول رکھنا درست نہیں کیونکہ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں معروف نہیں تھا حتیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین اہل میت  کے یہاں جم گھٹا لگانے  اور نوحہ کے کھانا مخصوص کرنے  اور نوحہ ماتم کرنے کوگناہ کبیرہ میں شمار کرتے تھے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نوحہ کرنے اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے، نیز آپ نے فرمایا ہے:

«اَلنَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ» (صحيح مسلم، الجنائز، باب التشديد فی النياحة، ح: ۹۳۴)

’’نوحہ کرنے والی عورت اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے، تو اسے قیامت کے دن اس طرح کھڑا کیا جائے گا کہ وہ گندھک (یاتارکول) کا کرتہ اور خارش کی اوڑھنی پہنے ہوئے ہوگی۔‘‘

ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرتے ہیں۔

میری مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت ہے کہ وہ ان بدعات کو ترک کردیں کیونکہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں یہی بہتر اور باعث خیر ہے۔ میت کے لیے بھی یہی بہتر اورموزوں ہے اس لئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے اور نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے اور عذاب دیے جانے کے معنی یہ ہیں کہ اسے اس رونے اور نوحہ کرنے کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اسے اتنی سزا ملے گی جتنی نوحہ و بکا کرنے والے کو سزا ملتی ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرى...﴿١٦٤﴾... سورة الأنعام

’’اور کوئی شخص کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘

عذاب کے لفظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ سزا ہی کے معنی میں ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«اَلسَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنْ الْعَذَابِ» (صحيح البخاري، العمرة، السفر قطعة من العذاب، ح: ۱۸۰۴، وصحيح مسلم، الامارة، باب السفر قطعة من العذاب، ح: ۱۹۲۷)

’’سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔‘‘

حالانکہ سفر سزا تو نہیں ہوکرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غم و فکر وغیرہ کو بھی عذاب کہا جا سکتا ہے۔ لوگ بھی عموماً اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں کہ میرے ضمیر نے مجھے عذاب دیا ہے یہ اور اس طرح کے الفاظ اس وقت استعمال کیے جاتے ہیں جب دل پر شدید غم وفکر کا ہجوم ہو۔ خلاصہ کلام یہ کہ میں اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس قسم کی عادتیں ترک کر دیں جو انہیں اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتی ہیں اور ان کے فوت شدہ عزیزوں کے لیے بھی تکلیف اور پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ342

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ