السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جیمس آباد خانیوال سے میاں ممتاز احمد لکھتے ہیں کہ ایک شخص اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو نقدی اور مشینری وغیرہ بطور عطیہ بقیہ اولاد کی نسبت زیادہ دے دیا جاتاہے۔اب کیا اس کی بقیہ اولاد عطیہ نقدی او ر مشینر ی وغیرہ سے بطور وراثت حصہ وصول کرسکتے ہیں جبکہ وہ شخص خود فوت ہوچکا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولاد کو عطیہ دینے کے متعلق امام بخاری رحمۃ للہ علیہ فرماتے ہیں۔:''کہ اگر کوئی اپنی اولاد میں سے کسی کو عطیہ دیتا ہے۔دوسرے کو کچھ نہیں دیتا یہ جائز نہیں اسے چاہیے کہ اولاد کے معاملے میں عدل وانصاف کرے دوسرے کو بھی اتنا ہی دے۔''یہ ہدایت کرنے کےبعد حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروری ایک حدیث بیان کر تے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو ایک غلام بطور عطیہ دیا۔پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تاکہ آپ کو اس پر گواہ بناؤں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ کیا سب بیٹوں کو اس قسم کا عطیہ دیا ہے۔''عرض کیا نہیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ سے ڈرو اپنی اولاد کے درمیان مساوات کرو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عطیہ کو مسترد کردیا۔''(صحیح بخاری :کتاب الھبہ)
اس سے معلوم ہو اکہ باپ کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے کسی بیٹے کو عطیہ دے اور کسی کو نہ دے بلکہ عطیہ کے متعلق بیٹے اور بیٹی کی تفریق بھی درست نہیں ہے۔تمام اولاد کو برابر برابرعطیہ دینا چاہیے۔صورت مسئولہ میں متوفی نے جو ایک بیٹے کو نقدی اور مشینری دوسری اولاد کی نسبت زیادہ د ی ہے۔اس کا یہ فعل ناجائز اور غیر شرعی ہے اس کا حل یہ ہے:
1۔اس سے عطیہ واپس لیا جائے اور اسے مال متروکہ میں شامل کرکے تمام ورثاء اسےبقدر حصہ تقسیم کرلیں تاکہ کسی حق دار کی حق تلفی نہ ہو۔
2۔جس قدر نقد اور مشینری ایک بیٹے کو دوسروں کی نسبت زیادہ ملی ہ۔اتنی نقدی ار مشینری بقیہ اولاد میں سے ہر ایک اس کے متروکہ مال سے لے کر بقیہ مال کو بطور وراثت تقسیم کرلیں۔کیونکہ قرآن مجید میں ناجائز وصیت کرنے کے متعلق فرمایا ہے کہ'' ہاں اگر کوئی وصیت کرنے والے کی طرف سے جانبداری یا حق تلفی کا خطرہ محسوس کرے تو اسے چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے درمیان صلح کروادے ایسا کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔''(2 /البقرہ :182)
مرنے والے کے غلط اقدام کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔بلکہ اخروی معاملات اور حقوق العباد کے پیش نظر ایسا کرناضروری ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب