سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

وراثت کی تقسیم

  • 11543
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 873

سوال

وراثت کی تقسیم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربان علی کی وفات٢٠٠٣ میں ہوئی ،انہوں نے ٨٠گز کے ٢پلاٹ بطور ورثہ چھوڑے جس کی مجموعی مالیت ٦٠لاکھ روپے بنتی ہے ان کے ورثاء میں ان کی اہلیہ ٤بیٹے اور ٣بیٹیاں شامل ہیں بیٹیاں شادی شدہ ہیں وفات کے کچھ عرصہ بعد ٤بیٹوں نے دونوں پلاٹ اس طرح آپس میں تقسیم کیے کہ فی بھائی کے حصہ میں ٤٠گز جگہ آئی جبکہ بیٹیوں کو کچھ نہ ملا بیٹیاں اس بات پر راضی ہیں کہ انہیں ان کا حصہ بطور وراثت نقدی کی صورت میں دے دیا جائے۔

مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد کے حصہ میں جو ٤٠گز پلاٹ آیا ہے اس میں ان کی تینوں بہنوں اور انکی والدہ کا واجب الادا حصہ کیا ہوگا؟والد صاحب اپنی زندگی میں ہی ادائیگی کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں الحمد اللہ ٣لاکھ مجموعی طور پر تینوں بہنوں کو ادا کر چکے ہیں ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فر مائیں تاکہ بقیہ رقم کی صحیح ادائیگی کی جاسکے ۔

جبکہ باقی ١٢٠گز پلاٹ جو کہ دوسرے تین بھائیوں کی ملکیت یا قبضہ میں ہے اس میں بھی ٣بہنوں اور کا انکی والدہ کا حصہ بنتا ہے جو کہ ان بھائیوں پر واجب الادا ہو گا ،آپ ہمیں ٤٠گز کے حساب سے بتادیں ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیٹوں کو چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے شریعت کے مطابق وراثت تقسیم کریں اور بہنوں اور ماں کو بھی حصہ دیں ۔صورت مسئولہ میں کل جائداد (2 پلاٹ بقول آپ کے مالیتی 60 لاکھ) میں سے ماں کا چھٹا حصہ (10 لاکھ) ہے ،جبکہ بقیہ ترکہ (50 لاکھ)بیٹوں اور بیٹیوں میں للذکر مثل حظ الانثیین کے اصول پر تقسیم ہو گا۔یعنی بیٹے کو بیٹی کی نسبت سے ڈبل ملے گا۔اس اعتبار سے یہ کل ورثاء گیارہ بن جاتے ہیں ۔آٹھ بیٹے اور تین بیٹیاں۔لہذا ہر بیٹی کو 454545 روپے اور ہر بیٹے کو اس کا ڈبل 909090 ملے گا۔اب آپ کے باپ کے حصے میں بھی یہی 909090 روپے آئے ہیں ۔اور ان بہنوں اور ماں کو جو حصہ نہیں ملا ہے ،وہ حصہ چاروں بھائیوں کے پاس موجود ہے۔ہر بھائی کے پاس ماں کے اڑھائی اڑھائی لاکھ ہیں ،جبکہ بہنوں کے 340908 روپے واجب الادا ہیں۔ان کو چاہئے کہ وہ ان روثاء کی رقم انہیں واپس کر دیں۔یعنی ہر بھائی اڑھائی لاکھ روپے ماں کو اور 340908 روپے بہنوں کو ادا کرے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی


تبصرے