سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95) قضاء عمری ایک قبیح بدعت ہے

  • 11520
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 1861

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قضاء عمری کے بارے میں بتائیں کیا یہ بدعت ہےیا اس کی کوئی دلیل وارد ہوئی ہے؟ ھدایہ کے شارحین اس کے بارے میں ایک حدیث ذکر کرتے ہیں،اس کی کیا حقیقت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوةالا باللہ۔

قضاء عمری شرعی لحاظ سے بدعات قبیحہ میں سے ہے رسولؐ نے نہیں کیا،نہ اس کی ترغیب دی اور نہ ہی رہنمائی فرمائی، تمام صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے نہیں کہا،اور جس کام کی یہ حالت ہو وہ بدعت اور گمراہی ہے اوراس کا کرنے والا گمراہ مبتدع اور صاحب رسالتؐ کا گستاخ ہے۔نبیؐ نے فرمایا، جو ہمارے دین میں ایسی نئی بات  نکالتا  ہے جواس میں نہ ہو وہ مردود ہے۔"اور ایک روایت میں ہے، جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر(دین)نہیں وہ مردود ہے،"روایت کیا اس کو بخاری  مسلم نے،مشکٰوۃ(1/27)

تو کیا اس کام کا ہمارے نبیؐ نے حکم دیا ہے یا یہ ان کا فعل ہے یا تقریر۔اے بدعتیو!جواب دو۔

اور امام مالکؒ نے فرمایا، جس نے اسلام میں بدعت نکالی اور اسے اچھا کام سمجھتا ہے تو اس کا خیال ہے کہ رسولؐ نے رسالت میں خیانت کی۔اسی طرح الاعتصام میں ہے۔

امام ابن کثیرؒ نے(6/156) میں کہا ہے، اہل سنت والجماعت اس قول وفعل کو بدعت کہتے ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنھم سے ثابت نہ ہو کیونکہ اگر وہ اچھا کام ہوتا تو وہ ہم سے پہلے کرتے۔کیونکہ انہوں نے کوئی اچھی خصلت نہیں چھوڑی جس پر عمل کرنے میں سبقت نہ کی ہو۔تو ہم (ان قضاء عمرے کرنے والوں) سے پوچھتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس کوئی شرعی دلیل ہو تو ہمیں ہیش کرو

تو وہ کہتے ہیں ہمیں المنایہ اور النہایہ جیسی ھدایہ کی شروحات میں حدیث ملی ہے جس کے لفظ یہ ہیں، جس نے رمضان کے آخری جمعہ کے دن فرض نمازوں کی قضاء کی تو اس سے گذشتہ عمر اور مزید 70 سال تک کی فوت شدہ نمازوں کی کمی پوری ہو گی۔تو ہم ہر پکارنے والے کی پکار کے پیچھے لگنے والوں کو کہتے ہیں کہ کیا اس جھوٹی روایت کی سند تمہیں کہیں ملی ہے یا کتب حدیث میں تمہیں اس کا مخرج ملا ہے تو ہم کہتے ہیں اس کی صحیح سند تو درکنار،یہ ضعیف سند بھی نہیں پا سکتے۔

ملا علی قاری نے ماضوعات کبریٰ(ص:74)میں اس حدیث کو قطعی باطل کہا ہے اور یہ اجماع کے منافی ہے اس بات پر کہ عبادات میں سے کوئی بھی عبادت کئی سالوں کی فوت شدہ عبادت کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔

پھر نہایہ سمیت ھدایہ کے باقی شراح کی نقل کردہ عبارت غیر معتبر ہے اس لیے کہ وہ محدثین نہیں تھے اور نہ ہی حدیث کی مخرجین حدیث میں سے کسی کی طرف سند بیان کی ہے۔الخ۔

اور ہم کہتے ہیں:کہ فقہاء یا منہ بولے فقہاء رسولؐ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے میں کوئی پرواہ نہیں کرتے۔اور اسلامی دواوین میں بے اصل حدیثیں ذکر کرتے ہیں۔اس کا مشاہدہ آپ اما ابن حجرؒ کی کتاب الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ میں کر سکتے ہیں۔اور اسی طرح اس جھوٹی روایت کی وجہ سے لوگوں کو ترک نماز کی جسارت ہو گئیہے کیونکہ وہ یہ کیال کرتے ہیں کہ قضاء عمری کرنے سے مغفرت ہو جائے گی۔ان کی گھڑی گھڑائی باتوں نے ان کے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے(آل عمران:24)

علمائے حدیث ذکر کرتے ہیں کہ صلاۃ تسبیح اور صلاۃحاجت کے علاوہ صلاۃ الرغائب،صلاۃالرجیہ،شعبان کی پندرہویں رات کی نماز اور راتوں اور دنوں میں پڑھی جانیوالی دیگر نمازیں اور قضاء عمری کی نمازوں سمیت ہر وہ نماز جو معروف نمازوں کے خلاف ہو وہ بدعت ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

مراجعہ کریں موضوعات لابن جوزیؒ (2/111تا146) ،المنار الصھف لابن قیمؒ (ص95) ضیاء النور(ص:204) التبیان للشیخ عبدالسلام رستمیؒ (ص:197) کہ قضاء عمری بدعت ہے۔اگر تمہارے پاس شریعت مطہرہ کی کوئی  دوسری دلیل ہو تو پیش کرو جو تمہیں ہر گز نہیں مل سکتی۔اور ہم نے اس نماز کے بدعت ہونے کے قوی دلائل ذکر کر دیئے۔حق کے بعد تو گمراہی ہی ہو سکتی ہے اور سنت کے بعد بدعت ہی ہو سکتی ہے۔

واللہ ولی التوفیق۔منگل10ربیع الاول1415ھ

اس کے بعد ابن عابدین وغیرہ کے قول کا کوئی اعتبار نہیں جا اس نے (1/542)میں ذکر کیا ہے،اس لیے بعض نے کہا ہے،وہ شخص جو نماز فوت نہ ہونے کے باوجود قضاء عمری کرتا ہے تو مکروہ نہیں کیونکہ اس نے احتیاط اختیار کی ہے ۔

میں کہتا ہوں:یہ گمراہی ہے کیونکہ ابن عابدین اسے مجہول سے نقل کر رہا ہے۔پھر وہ فرائض جو اپنی شرائط کے مطابق ادا کر دئے گئے ہیں ان کی قضاء کرنا بدعت اور گمراہی نہ ہو تو پھر دنیا میں سرے سے بدعت کا وجود ہی نہیں۔ان کے پاس آراء اور قیل و قال کے علاوہ کوئی دلیل ہے نہ نقل۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص201

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ