سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(349) غائبانہ نماز جنازہ کے بارے میں حکم

  • 1151
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4189

سوال

(349) غائبانہ نماز جنازہ کے بارے میں حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز جنازہ غائبانہ مطلقاً جائز ہے یا اس کے لیے مخصوص شرائط ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ مشروع نہیں ہے الایہ کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی ہی نہ گئی ہو، جیسے کوئی شخص کسی کافر ملک میں مر جائے اور اس کا کسی نے جنازہ نہ پڑھا ہو یا جیسے کوئی کسی سمندر یا دریا یا کسی وادی میں غرق ہوگیا ہو اوراس کی لاش نہ ملی ہو تو اس کا غائبانہ جنازہ پڑھنا واجب ہے۔ اور جس کی نماز جنازہ پڑھی گئی ہو تو صحیح بات یہ ہے کہ اس کا غائبانہ جنازہ پڑھنا مشروع نہیں ہے کیونکہ نجاشی کے واقعے کے سوا سنت سے دوسرا کوئی واقعہ ثابت نہیں ہے اور نجاشی کا اس کے اپنے ملک میں جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ میں اس کا جنازہ پڑھایا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے کسی اور کا جنازہ غائبانہ نہیں پڑھایا، حالانکہ آپ کے عہد میں بڑے بڑے لوگوں اور بہت عظیم شخصیتوں کا انتقال ہوا تھا۔ بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ جس کے مال، عمل یا علم سے دین کو فائدہ پہنچا ہو تو اس کا جنازہ غائبانہ پڑھا جائے گا اور جو شخص ایسا نہ ہو تو اس کا غائبانہ جنازہ نہیں پڑھا جائے گا او ر بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ مطلقاً جائز ہے لیکن یہ سب سے ضعیف قول ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ339

محدث فتویٰ

تبصرے