السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ذکر شرعی کا انگلیوں پر حساب رکھنے کا کوئی خاص طریقہ ہے جس طرح کوئی انسان چاہے انگلیوں پر شمار کرسکتا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم نے مسئلہ : (نمبر8)میں تسبیح اور انگلیوں پر ذکر کا حکم تفصیل سے بیان کردیا ہے ۔ مطلوبہ مسئلہ میں ہم کہتے ہیں ،حدیث صحیح سے ثابت ہے جیسے ابوداؤد (1؍28) رقم : (1502) میں بروایت عبداللہ بن عمر وبن العاص التے ہیں ،وہ کہت ہیں کہ رسول اللہ ﷺتسبیحات دائیں ہاتھ سے گنا کرتے تھے ،ترمذی (2:رقم:3652 ۔3733)، ابن ماجہ (1؍299) احمد (2؍204)مشکاۃ (1؍رقم:2406)اور اسی طرح مستدرک (1؍547)۔
دوسری حدیث:ابوداؤد (1؍280)نے بروایت یسیرہ رضی اللہ عنھما ذکر کیا ہے ، وہ خبر دیتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے انہیں حکم دیا ہے وہ تکبیر ،تقدیس اور تہلیل کا خیال رکھیں اور انہیں انگلیوں پر گنا کریں ،ان (انگلیوں )سے پرسش ہوگی اور ان سے باتیں کروائی جائیں گی ، اس کی سند حسن ہے ۔ مشکوۃ (1؍202) ترمذی ،نے اسے نکالا ہے تحفہ (4؍284)احمد(6؍370)۔
مبارک پوری تحفہ (4؍283) میں کہتے ہیں ’’ واعقدن ‘‘ یعنی تسبیحات کا شمار انگلیوں پر کریں ان کو بند کر کے سروں پر اور عقد الشیء بالانامل ‘‘ کے معنی ہے : کسی چیز کو انگلیوں کے ذریعے شمار کرنا ۔جاننا چاہیے کہ عربوں کا گنتی کا معروف طریقہ ہے جس پر ان کا توافق چلا آرہا ہے جو اکائیوں ’’عشروں ‘‘سنیکڑوں اور ہزاروں کی مختلف انواع پر مشتمل ہے ۔
اکائیوں میں وہ ایک کے لیے چھنگلی کو ہتھیلی کی طرف بند کر لیتے ہیں ،دو کے لیے وہ اس کے ساتھ ساتھ انگلی بھی بند کر لیتے ہیں اور تین کے لیے دونوں کے ساتھ بیچ والی انگلی بھی بند کر لیتے ہیں ، چارکے لیے وہ چھنگلی کو کھول لیتے ہیں ۔ اور پانچ کے لیے وہ چھنگلی اور ساتھ والی انگلی دونوں کھول دیتے ہیں ۔چھ کے لیے وہ چھنگلی کے ساتھ والی انگلی کو بند کر کے باقی سب انگلیاں کھول دیتے ہیں ۔سات کے لیے وہ چھنگلی کو ہتھیلی میں انگوٹھے کی جڑ تک پھیلا دیتے ہیں ۔ آٹھ کے لیے ساتھ والی انگلی پر اسی طرح رکھ دیتے ہیں اور نو کے لیے درمیانی انگلی کو بھی ان پر اسی طرح رکھ دیتے ہیں ۔
عشرات (دھاگے ) کے لیے انگوٹھا اور شہادت کی انگلی ہوتی ہے پہلے دھاکے (عشر)کے لیے انگوٹھے کے سرے کو شہادت والی انگلی کے پہلو رکھتے ہیں ،دوسرے دھاکے (عشرین) (بیس:20)کے لیے انگوٹھے کو دونوں انگلیوں (شہادتوں والی اور بیچ والی)کے درمیا ن رکھتے ہیں ۔اور تیس کے لیے شہادت والی انگلی کا سر ا انگوٹھے کے سرے پر کھتے ہیں اور چالیس کے لیے انگوٹھے کو شہادت والی انگلی کے درمیانے بند پر رکھتے ہیں ،اور پچاس کے لیے انگوٹھے کو شہادت والی انگلی کی جڑ کی طرف موڑتے ہیں ، اور ساٹھ کے لیے چالیس کے برعکس شہادت والی انگلی کو انگوٹھے کی پشت پر جوڑتے ہیں ۔اور ستر کے لیے انگوٹھےکا سرا شہادت والی انگلی کے درمیان بند پر گراتے ہیں اور ا س کا سرا انگوٹھے کی طرف موڑتے ہیں ۔اور اسی کے لیے شہادت والی انگلیکے اس جانب پھیلا دیتے ہیں جو انگوٹھے کی طرف ہے اور نوٗے کے لیے شہادت والی انگلی کو انگوٹھے کی جڑ کی طرف موڑ دیتے ہیں ۔اور سینکڑے نوسو تک اکائیوں کی طرح ہیں بائیں ہاتھ میں اور ہزار دھاکوں (عششرات)کی طرح ہیں بائیں ہاتھ میں ۔
مرقات (5؍118؍119)میں ہے ’’ واعقدن بالانامل‘‘ کا معنی ہے تسبیحات کی گنتی انگلیوں اور اس کے سروں سے کرو ، اس سے دلالت ہوتی ہے کہ صحابہ میں یہ مخصوص حساب اور عقد جاننے والے تھے ۔
اور ابن عمر کی یہ معرفت رکھنا اس مشہور حدیث کے منافی نہیں جس کے راوی بھی وہی ہیں کہ ’’ہم امی امت ہیں لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے ‘‘کیونکہ اسے یاتو اکثر پر حمل کریں گے یا نفی حساب مذموم پر حمل کریں گے جو علم نجوم تک پہنچتا ہے ۔ملخصاً النوی شرح مسلم (1؍216)احمد(2؍131)۔
مسند احمد (2؍341)میں ہے :اور وھیب نے نوے کا عقد کیا ۔ اور بخاری (2؍1046) سفیان نے نوے یا سو عقد کیا ۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری (13؍92)میں تفصیل کرتے ہوئے کہا ہے ،کہ ’’ عقد حساب یہ عربوں کی اپنی اصطلاح ہے جسے انہوں نے آپس میں تلفظ سے بچنے کے لیے وضع کیا ہے ۔
اور وہ اس کا اکثر استعمال سودوں میں بھاؤ کے وقت کیا کرتے تھے ۔ایک اپنا ہاتھ دوسرے کے ہاتھ میں رکھتا تو تلفظ کہے بغیر دونوں مراد کو سمجھ لیتے تھے ، دیگر حاضرین سے اپنی مراد کو مستور رکھنا مقصود ہوتا تھا ۔تو جس قدر سد (سکندری) سے کھل گیا تھا اسے نبیﷺ نے ایسی صفت کے ساتھ تشبیہ دی جو انہیں معلوم تھی ، اور ان عقود کے ساتھ اکثر شعراء نے بھی تشبیہ دی ہے ۔ اس پر غور کرتے ہوئے مجھے ایک لطیفہ ملا ۔ کسی ادیب کا یہ شعر ہے:
(کتنے ہی پسوّ تھے کہ میں نے ان سے رات گزاری اور میرا دل نوے کی مٹھی میں تھا ۔تیس کے ہاتھ نے اسے گرفتار کیا اور ستر(70)کے ہاتھ نے اسے موت کا مزا چکھایا ) اور تیس کا عقد یہ ہے کہ انگوٹھے کو شہادت والی انگلی سے ملا دیا جائے جیسے کہ کوئی سوئی جیسی باریک چیز پکڑ رہا ہو اور ستر کی گرہ یہ ہے کہ انگوٹھے کے ناخن والا کنارہ اندرکی طرف شہادت والی انگلی کے دو بندوں کے درمیان میں دکھ دیا جائے اور شہادت والی انگلی کو اس پر موڑ دیا جائے جیسے کوئی دینار کو کھوٹہ کھر معلوم کر رہا ہو۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے ’’عقد انامل‘‘ رسالے میں لکھا ہے ’’ اس حساب سے ذکر کرنا سنت نبوی ہے اور انہوں نے اردو زبان میں اپنے خاص مطبوعہ رسالے میں ان گرہوں کو تصویروں کے ذریعے بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ کیفیت کے ساتھ گن لیا جائے سنت ادا ہو جائیگی لیکن مذکورہ کیفیت افضل ہے ان احادیث کی وجہ سے اور اس لیے بھی صلحا اور متقین میں یہی طریقہ معروف تھا ومن اللہ عزوجل التوفیق ۔ رجوع فرمائیں : مصنف ابن ابی شیبہ (2؍389۔391)۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب