السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سمندری سے حاجی محمد رمضان لکھتے ہیں کہ ایک عورت جس کا خاوند فو ت ہو چکا ہے اس کے بطن سے اس کی اولا د بھی ہے بیو ہ اپنے خاوند کی مترو کہ جا ئیداد کی تقسیم سے پہلے ہی آگے نکا ح کر لیتی ہے ایسی عورت کو پہلے خا و ند کی جائیداد سے کچھ ملے گا یا اسے نکا ح کر نے کی وجہ سے سا بقہ خا وند کی جا ئیداد سے محروم ہو نا پڑے گا ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ مذکو ر ہ عورت اپنے خا و ند کی جائیداد سے 8/1لینے کا حق رکھتی ہے کیو نکہ خا وند کی اولا د بھی مو جو د ہے اور یہ حق اسے شریعت نے دیا ہے ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :" اگر تمہاری اولا د ہو تو ان بیو یو ں کو آٹھواں حصہ دیا جا ئے اس جا ئیداد سے جو تم نے چھوڑی ہے ۔(4/النسا ء 12)
بیو ہ کے لیے آگے نکا ح کر لینا اس کا حق ہے اور یہ حق اس حق وراثت پر اثر انداز نہیں ہو تا وہ سو گو اری کے ایا م گزار کر آگے نکا ح کر سکتی ہے اگر اس دورا ن پہلے خا وند کی جا ئیداد تقسیم نہیں ہو ئی تو الگ با ت ہے لیکن اسے اپنے حصے سے محرو م نہیں کیا جا ئے گا یہ ایک جا ہلا نہ رسم ہے کہ اگر بیو ی آگے نکا ح کر ے تو اسے پہلے خا وند کی جا ئیداد سے محروم کر دیا جا ئے شریعت میں اس قسم کی رسوم کے لیے کو ئی گنجا ئش نہیں ہے واضح رہے کہ بیو ی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد جو با قی جائیداد ہے اس کی حقدار مر حو م کی اولا د ہے ۔(واللہ اعلم با لصوا ب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب