سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(280) پلاٹ کی قیمت سے حصہ مانگنا

  • 11497
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 934

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ملتا ن سے محمد  حسین لکھتے ہیں  کہ عرصہ ہوا حکو مت  نے ہما رے  والد  محترم  کو پلا ٹ  دیا تھا جسے  ہما رے والد  تعمیر کر کے اس میں رہا ئش  پذیر ہو گے  کچھ عرصہ بعد  حکو مت  نے  ہما رے  والد  محترم  سے پلا ٹ  کی قیمت  کا مطا لبہ  کیا تا کہ مستقل  طور  پر مذکو رہ  پلا ٹ  ان کے نا م  منتقل ہو جا ئے  اس وقت  ان کے پا س  کو ئی رقم نہ تھی  ہما رے بڑے بھا ئی نے اپنی کما  ئی سے  اس پلا ٹ  کی رقم ادا کر دی  ادا ئیگی  کے بعد   وہ پلا ٹ ہمارے والد کے نا م رجسٹری ہو گیا ان کی وفا ت کے بعد  پلا ٹ دو نو ں بھا ئیو ں کے درمیا ن  وجہ  نزا ع  بن  گیا بڑے  بھا ئی کا مو قف ہے  کہ میں  اس نے  اس کی قیمت ادا کی تھی  اس لیے میں اس کا ما لک ہو ں  اس میں اور کو ئی شریک نہیں ہے  جبکہ  میرا  مو قف  ہے کہ  اس پلا ٹ  کی رجسٹری  والد  محترم کے  نا م تھی اس لیے وہی اس کے ما لک تھے  ان کی وفا ت  کے بعد بطو ر  وراثت  میں بھی  اس کا حقدار  ہو ں  واضح  رہے  کہ والد  مرحو م  کے ورثا ء  میں ہم دو نو ں  زندہ  ہیں ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ صورت مسئولہ  میں مذکو رہ  پلا ٹ  کا ما لک  وہی ہے  جس کو حکو مت  نے الاٹ کیا ہے  جس شخص نےاس  پلا ٹ کی قیمت اداکی ہے وہ صرف  اس بنا  پر اس کا ما لک نہیں ہو  سکتا  کہ اس نے اس  کی رقم ادا  کی ہے  کیو نکہ  حکو مت کا مطالبہ  جس شخص  سے تھا  وہ اس کا ما لک ہو گا  بیٹے  نے اگر  رقم با پ  کو دی  ہے تو حسن  سلو ک  اور با پ  سے خیرخوا ہی تو قرار  دیا جا سکتا ہے  لیکن اسے  بیٹے  کی ملکیت  کی وجہ نہیں  بنا یا  جا سکتا  لہذا با پ کے فو ت ہو نے کے بعد  ہر قسم  کی منقو لہ  اور غیر منقولہ  جا ئیداد  میں دو نو ں  بیٹے  برابر  کے  شریک ہیں  اگر با پ  زندگی میں  کسی کے نا م رجسٹری کرا گیا ہے  تو  اس کا یہ اقدام  بھی شر عاً  درست نہیں  ہے  دو نو ں  بیٹے  اس کے غلط  اقدام  کی درستگی  کے شرعاً پا بند  ہیں لیکن چو نکہ  ایک بیٹے نے پلا ٹ  کی پو ری رقم ادا کی ہے  اس لیے اس کی دادرستی بھی ہو نی چاہیے  جس کی صورت  یہ ہو سکتی ہے  کہ پلا ٹ  کی رجسٹری  کے وقت  جتنی  رقم  ادا کی گئی  تھی  اس وقت  کے حسا ب  سے اس کی  ما لیت  معلو م  کی جائے  اس وقت  سونے  کا کیا  نرخ  تھا اس کے مطا بق  رقم  کا جتنا  سو نا آ سکتا  تھا اس کا نصف  یا مو جو د ہ بھا ؤ  کے مطا بق  اس سو نے  کی قیمت  کا نصف  ادا کر کے  دوسرا بھا ئی  اس پلا ٹ  میں شریک  ہو سکتا ہے پرا نی  کر نسی  کی ادائیگی  پر اس پلا ٹ میں شریک  نہیں ہو سکے گا  پھر پلا ٹ  کی مو جو د  ہ با زاری  قیمت  لگا  کر با ہمی  تصفیہ  کر لیا  جا ئے  یعنی  ایک بھائی  دوسر ے کو  اس کی نصف  قیمت  ادا کر کے  تمام  پلا ٹ  کا ما لک  بن سکتا ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:304

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ