السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مانگا منڈی سے حافظ عبد الغفور لکھتے ہیں کہ میرے والد محترم وفات پا گئے ہیں پسما ند گا ن میں سے ایک بیٹا یعنی سا ئل ایک پو تا ایک پو تی اور بیو ہ مو جو د ہیں انہوں نے اپنی وفا ت سے تین دن قبل اپنے پوتے اور پو تی کے حق میں وصیت کی تھی کہ انہیں میر ی منقو لہ جا ئیداد کا 4/1حصہ دیا جا ئے تو کیا والد محتر م کی وصیت پر عمل کیا جا ئے یا قرآن و حدیث کی روسے ان کا کو ئی خا ص حصہ مقر ر ہے نیز یہ بھی بتا یا جا ئے کہ والد محتر م کی جا ئیداد سے کس کو کتنا حصہ دیا جا ئے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشر ط صحت سوال واضح ہو کہ قا نو ن ورا ثت کے مطا بق قریبی رشتہ دا رو ں کی مو جو د گی میں دو ر کے رشتہ دار محروم رہتے ہیں صورت مسئو لہ میں قریبی رشتہ دار بیٹا مو جو د ہے اس کے ہو تے ہو ئے دور کے پو تا اور پو تی شر عی طو ر پر اپنے دادا کی جا ئیداد کے حصہ دار نہیں ہیں لیکن مر حو م نے ان کے حق میں اپنی جا ئیدا د کے 4/1 کی وصیت کی جا ئز ہے اور شریعت نے اس کی اجا ز ت دی ہے کیونکہ وصیت کی تین شرائط ہیں : (1)وصیت شرعی وارث کے لیے نہ ہو ۔
(2)3/1سے زائد نہ ہو ۔(3)نا جا ئز کا م کے لیے نہ ہو ۔ اس صورت میں تینو ں شرائط پا ئی جا تی ہیں لہذا اس وصیت کا نا فذ کر نا ضروری ہے جس کی صورت یہ ہو گی کہ تقسیم جا ئیداد سے پہلے 4/1الگ کر دیا جا ئے اور مر حو م کے پو تے اور پو تی کو دے دیا جا ئے با قی 4/3میں وراثت کا قانو ن جا ر ی ہو گا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :
کل حصص: بیٹا = 32/21 بیوہ = 32/3 پوتا پوتی =4/1= 1'2'3'8
یعنی کل جا ئیداد کے 32حصے ہو ں گے جن میں سے 4/1 حصے پو تے اور پو تی کو بلحا ظ وصیت دیئے جا ئیں گے با قی 24حصو ں سے 8/1 یعنی 3حصے بیوہ کو اس کے بعد ما ند 21حصص لڑکے کو مل جا ئیں گے مر حو م کی جا ئیداد اس طرح تقسیم ہو گی پو تے اور پو تی کو بحیثیت وارث تو کچھ نہیں ملے گا البتہ وصیت کے مطا بق وہ اداد کی جا ئیداد سے حسب وصیت حقدار ہیں وصیت کا اجراء تقسیم وراثت سے پہلے ہو گا پھر با قی جا ئیداد کو حسب تفصیل با لا تقسیم کیا جائے۔(واللہ اعلم بالصواب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب