السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لالہ موسیٰ سے بواسطہ ذیشا ن خریداری نمبر 5695قاضی محمد خاں کا ایک سوال اہل حدیث مجر یہ 5ستمبر 2003ءشما ر نمبر 36میں شائع ہو تھا کہ میر ی بیو ی فو ت ہو گئی نہ اس کے والدین زندہ ہیں اور نہ ہی اس کی کو ئی اولا د ہے صر ف اس کا خا و ند اور تین حقیقی بہنیں زندہ ہیں اس کی جا ئیدا د کیسے تقسیم ہو گی ہم نے اس کے جوا ب میں لکھا تھا کہ صورت مسئولہ کلالہ کی ایک صورت ہے چو نکہ اولا د نہیں اس لیے خاوند کو اس کی منقو لہ اور غیر منقو لہ جا ئیداد سے نصف ملے گا اور تین حقیقی بہنو ں کو کل جا ئیداد سے 3/2دیا جا ئے گا تقسیم میں سہو لت کے پیش نظر ہم نے لکھا تھا کہ جا ئیداد کے چھ حصے کر لیے جا ئیں نصف یعنی تین حصے خا و ند کو اور دو تہا ئی یعنی چا ر حصے تینو ں بہنو ں کو دئیے جا ئیں چو نکہ چھ حصو ں سے ورثا ء کو ملنے والے سہا م زیا دہ ہیں اس لیے یہاں عول ہو گا اس لیے کل جا ئیدا د کے چھ کے بجا ئے سا ت حصے کر لیے جائیں ان سا تھ حصو ں میں سے تین خا و ند کو اور با قی چا ر بہنوں کو مل جائیں گے آخر میں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ جا ئیدا د کی تفصیلی تقسیم محکمہ مال یعنی پٹو اری کے ذمے ہے وراثت کے فتو ی میں صرف حصو ں کا تعین کیا جاتا ہے تقسیم کا عمل مفتی کے ذ مے نہیں ہے اداہ "اہلحدیث کی وسا طت سے ہمیں ایک خط مو صول ہو ا جس میں قا ضی محمد خا ں لکھتے ہیں کہ " میر ے حق ورا ثت کے سوال پر جو مشو رہ دیا گیا ہے وہ اللہ تعا لیٰ کی مقرر کر دہ حدود کی مخا لفت کر تا ہے نیز یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حا مل ہے اس میں بڑی محنت درکا ر رہے اسے عو ل یا پٹواریوں کے رحم و کر م پر نہیں چھو ڑ ا جا سکتا ۔(الی آخرہ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم نے سوال کا جوا ب قرآن کر یم کی آیا ت کے حو الہ سے دیا تھا ہما رے نز دیک ہر مسئلہ ہی بڑی اہمیت کا حا مل ہو تا ہے ہے اس لیے سوالات کے جو اب میں محنت بھی کی جا تی ہے اور احسا س ذمہ داری بھی ہو تا ہے کیو نکہ ہما ر ے نز دیک مفتی کا منصب یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیا بت میں رہتے ہو ئے سوالات کے جواب دیتا ہے اس مختصر وضا حت کے بعد کچھ ملا حظا ت پیش خدمت ہیں : (1)پر چہ "اہل حدیث "کو ئی کا رو با ر ی میگز ین نہیں ہے کہ اس سے دنیا وی منفعت ہو تی ہو بلکہ دنیا وی لحا ظ سے دینی جرا ئد خسا ر ے میں رہتے ہیں البتہ دینی لحا ظ سے یہ مفا د ضرور ہو تا ہے کہ ان سے دین اسلا م کی سر بلندی اور اسلامی تعلیما ت کی نشرو اشاعت مقصود ہو تی ہے شا ید سوالا ت کے جو اب کے لیے خریدا ری نمبر کی پا بندی بھی اس لیے ہے کہ اس کے خریدار زیا دہ ہو ں لیکن یہ با ت اخلا قی لحا ظ سے صحیح نہیں ہے کہ دو سروں کے خریداری نمبر کا سہارا لے کر سوالا ت پوچھے جا ئیں ویسے بھی سوال و جواب کے کا لم میں غیرخریدار کو خا طر میں نہ لاتے ہو ئے جواب دئیے جا تے ہیں ۔
(2)عول کا سہرا مجبو اً لیا جا تا ہے حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے سب پہلے عو ل کا حکم دیا تھا ان کے زما نے میں ایک ایسی صورت واقع ہو ئی کہ اصحا ب فرائض سے سہا م تر کہ کی اکا ئی سے زیا دہ تھے جیسا کہ مو جو دہ صورت مسئو لہ میں ہے آپ نے کبا ر صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ فر ما یا حضرت عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ بن عبد المطلب رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے عو ل کا مشورہ دیا جس سے تمام صحا بہ نے اتفا ق فر ما یا ان میں حضرت عثما ن رضی ا للہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی ا للہ تعالیٰ عنہ جیسے مجتہد ین صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین شا مل تھے حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے عو ل کے مسئلہ میں صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین کے متفقہ مسئلہ میں اختلا ف را ئے کیا اگر حضرت ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کی مخا لفت مشہو ر نہ ہو جا تی تو عو ل کے مسئلہ پر اجما ع قطعی کا حکم لگا دینا یقینی ہو جاتا حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے عو ل کی ضرورت کو با یں الفا ظ بیا ن فر ما یا :" کہ مجھے قرآن کر یم سے یہ معلو م نہ ہو سکا کہ مقرر ہ حصہ لینے والو ں میں سے کو ن قا بل تقدیم ہے اور کو ن قا بل تا خیر تا کہ مقد م کو پہلے اور مؤخر کو بعد میں کر دیا جا ئے اس لیے انہو ں نے سب اصحا ب فرا ئض کے در میا ن یکسا نیت پیدا کر نے کے لیے عو ل کا طریقہ جا ر ی فر ما یا حضرت ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے نز دیک خا وند قو ی حقدار ہے اس لیے اسے پورا پو را حصہ دیا جا ئے اور بہنیں کمزور حصہ دار ہیں ان کے حصوں میں کمی کی جا ئے صورت مسئولہ میں مسئلہ چھ سے بنتا ہے لیکن سہا م سا ت ہیں ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک خا وند کو کل جا ئیداد سے نصف یعنی 2/1 دے دیا جا ئے اور بہنو ں کے چا ر حصوں سے ایک حصہ کم کر کے انہیں صرف تین حصے دئیے جا ئیں اس طرح عول کی ضرورت نہیں رہتی لیکن حضرت ابن عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا مو قف اس لیے درست نہیں ہے کہ تمام مقررہ حصہ لینے والے حقدار جو کسی درجہ میں جمع ہوں ازروئے استحقاق برابر ہیں اور کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی چو نکہ سب کا استحقاق بذریعہ نص قرآن قا ئم ہو ا ہے لہذا سب کا استحقا ق برابر ہو گا اور ہر شخص اپنا اپنا پو را پو را حصہ لے گا اور اگر تر کہ حسب حصص مو جو د نہ ہو جیسا کہ مو جو د ہ صو رت میں ہے تو سب کے حصوں میں برابر کمی کی جا ئے اور عول کے ذریعے سے جو مخرج بڑھا یا جا تا ہے اس کی وجہ سے جو نقصا ن عا ئد ہو وہ تمام مستحقین پر بقدر تنا سب پھیلا دیا جا ئے یہی راجح ہے اور اسی پر امت کا عمل ہے البتہ شیعہ حضرات نے اس سے اختلا ف کیا ہے وہ حضرات ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے مو قف سے اتفا ق کر تے ہیں اور حضرت علی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا سا تھ چھو ڑ دیتےہیں ان کے نز دیک اگر جملہ حصص کی میزا ن جا ئیداد کی اکائی سے متجا وز کر جا ئے تو اس اضا فہ کو بیٹیوں اور بہنوں کے حصص سے منہا کر دیتے ہیں تو معلو م ہو تا ہے کہ صورت مسئو لہ میں قاضی محمد خا ں کو بھی اس لیے اختلا ف ہے کہ خا وند ہو نے کی حیثیت سے ان کے حصہ میں عول کی وجہ سے معمولی سی کمی واقع ہو ئی ہے دلو ں کے حا لا ت تو اللہ ہی بہتر جا نتا ہے بظاہر قرائن سے یہی معلو م ہو تا ہے با قی پٹواریو ں کا حوالہ اس لیے دیا گیا تھا کہ جائیداد اگر زمین کی شکل میں ہو تو ہر وارث کو کتنی کنا ل یا مرلے یا کتنی سرسائیاں ملیں گی اس تقسیم کی ذمہ داری مفتی پر نہیں ہے کیو نکہ اس نے علم وراثت پڑھا ہے محکمہ ما ل کے کو رس نہیں کئے ہیں لہذا ہم نے فتوی میں جو مشورہ دا یا ہے اس میں اللہ کی کسی حد کو نہیں تو ڑ ہے ۔اللہ تعالیٰ حق سمجھنے اور اس پر عمل کی تو فیق دے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب