سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(271) تقسیم جائیداد کے متعلق سوال

  • 11488
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 1212

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ٹنڈو آدم سے شیخ مصفیٰ لکھتے ہیں کہ ہمارے والد محترم عرصہ ایک سال سے فوت ہوچکے ہیں۔پسماندگان میں ہماری والدہ پانچ بیٹے اور  تین بیٹیاں ہیں ترکہ کیسے  تقسیم ہوگا۔نیز والد محترم نے اپنی زندگی میں چار بیٹیوں اور دو بیٹیوں کی شادی کردی تھی۔اب کیا  تقسیم جائیداد سے پہلے پہلے بیٹے اور بیٹی کی شادی پر ا  ٹھنے والے اخراجات منہا کئے جاسکتے ہیں یا کل جائیداد کو ورثاء میں تقسیم کرنا ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق قانون وراثت فوت ہونے والے کے ہر قسم کے اموال واملاک پر جاری ہوتا ہے۔اس کا ترکہ منقولہ ہو یا  غیر منقولہ زرعی ہو یا صنعتی الغرض ہر قسم کی جایئداد ورثاء میں  تقسیم ہوگی۔البتہ تقسیم سے پہلے میت کے کفن ودفن پر اٹھنے والے اخرااجات جائیداد سے  منہا کئے جاسکتے ہیں اگر میت کے ذمے قرض ہے تو اسے بھی اس جائیداد سے ادا کیا جائےگا۔پھر وصیت پوری کی جائےگی۔جو کل مال کے 3/1 حصہ کی حد تک ہوسکتی ہے۔اس کے بعد  ترکہ تقسیم ہوگا صورت مسئولہ میں والدہ یعنی مرحوم کی بیوہ کو آٹھواں حصہ دے کر باقی سات حصے اولاد میں تقسیم ہوں گے۔ آسانی کے لئے کل جائیدا د کے 104 حصے کرلیے جائیں بیوہ کو 13 حصے دے کر باقی 91 حصے اس طرح تقسیم کئے جائیں کہ بیٹے کو بیٹی سے دو گنا حصہ ملےیعنی ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے دیئے جائیں۔

صورت مسئولہ : بیوہ 5 بیٹے 3 بیٹیاں ۔۔۔(بیوہ :13 حصے) (5 بیٹے :70 حصے ۔فی بیٹا :14حصے ) (3 بیٹیاں :21 حصے ۔فی بیٹی :7 حصے)

مرحوم نے جن بچوں او ربچیوں کی شادیاں کی ہیں۔ان پر جو مال خرچ ہوا ہے۔وہ ان کا مقدر تھا۔یہ دوسرے بچوں کی شادی کے لئے  ترکہ سے خرچہ وغیرہ منہا کرنے کا پیش خیمہ نہیں ہوسکتا۔اس لئے قرض کی ادائیگی اور وصیت کے اجراء کے بعد جو  ترکہ باقی ہے۔اس پر ضابطہ وراثت  جاری ہوگا۔جس کی اوپر  تفصیل بتادی گئی ہے۔البتہ باپ کی جائیداد سے حصہ لینے والے برسرروزگار لڑکے اس بات کے  پابند ہے۔کہ وہ اپنی والدہ کے کہنے پر بیٹے اور بیٹی کی شادی پر اٹھنے والےاخراجات کا بندوبست کریں۔مرحوم کی جائیداد سے کسی مقدار کا حصہ کم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ والدہ کو اختیار ہے کہ جائیداد  تقسیم ہوجانے کے بعد اپنے لڑکوں کو حکماً کہے کہ وہ   اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کی شادی کے انتظامات کریں۔ اگر بڑے لڑکے ماں کے اس حکم سے سرعدولی کرتے ہیں تو اللہ کے ہاں سنگین جرم کاارتکاب  کرتے ہیں۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد  گرامی ہے:'' اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام ٹھرایا ہے۔''(صحیح بخاری :کتاب الادب)

قرآن پاک میں ایک واضح ارشاد ملتا ہے۔کہ اگرچہ اولاد کو ماں اور دونوں کی خدمت کرناچاہیے۔لیکن ماں کا حق اس بنیاد پر زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لئے زیادہ تکلیفیں اٹھاتی ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کسی نے پوچھا کہ والدین میں سے کسی کا حق خدمت مجھ پر زیادہ ہے ؟فرمایا:''تیری ماں کا۔''تین دفعہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہی جواب دیا۔اس نے  چوتھی دفعہ پوچھا کہ اس کے بعد کون ؟فرمایا:'' تیرا باپ''(صحیح  بخاری کتاب الادب) اس لئے مرحوم کے بڑے صاحبزدگان جو برسر روزگار ہوں شرعا واخلاقاً اس بات کے پابند ہیں۔کہ اپنی و الدہ کے فرمان کی بجا آوری کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی کا بندوبست کریں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:297

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ