سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(266) یتیم پوتے کا وراثت میں حصہ

  • 11483
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 867

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لاہورسے محمداشرف لکھتے ہیں کہ ایک شخص کی  وفات کے وقت اس کی بیوی دو بیٹیاں تین بیٹے اور ایک یتیم پوتا زندہ تھے۔ایک بیتے نے  تحصیل دار کے سامنے بیان دیا کہ مرحوم کے صرف تین بیٹے اور ایک یتیم پوتا زندہ ہیں اس طرح بیوہ اور اس کی دونوں بیٹوں کو محروم کرکے مرحوم کی جائیداد چادر حصوں میں مساویانہ  تقسیم ہوگئی۔ اب سوال یہ ہے کہ یتیم پوتا بیٹیوں کی موجودگی میں اپنے دادا کی وراثت لے سکتا ہے جبکہ پوتے کا موقف یہ ہے کہ مجھے اپنے دادا کی طرف سے خیر ات ملی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں شرعی تقسیم یہ ہے کہ بیوہ کو  آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد حقیقی اولاد میں اس طرح  تقسیم کی جائے گی۔بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دو گنا حصہ ملے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ کل جائیداد کے 64 حصے کئے جائیں گے۔ بیوہ کو آٹھ حصے دینے کے بعد باق 56 حصے لڑکوں اور لڑکیو ں میں 1:2 کی نسبت سے تقسیم کردیئے جائیں۔یعنی لڑکوں کو چودہ چودہ اور لڑکیوں کو سات سات حصے مل جائیں۔اولاد کی موجودگی میں پوتا محروم رہتا ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی دوطرح سے کی جاسکتی تھی۔

1۔مرحوم وصیت کے زریعے اسے کچھ سے سکتا تھا۔بشرط یہ کہ وصیت 3/1 سے زائد نہ  ہوتی۔

2۔ورثاء اپنی مرضی سے اسے کچھ نہ کچھ دے دیں لیکن وہ اس کے پابند نہیں  ہیں۔ اب درج بالا سوال سے معلو م ہوتا ہے کہ جائیداد کی تقسیم شریعت کے مطابق نہیں ہوئی۔ ورثاء کو چاہیے کہ جس کسی نے دوسرے کا حق دانستہ یا نادانستہ طور پر دیا جاتا ہے۔ وہ حق دار کو  اس کا حصہ واپس کردے۔ وگرنہ قیامت کے دن اس کے متعلق باز پرس ہوگی۔اس سلسلہ میں یتیم پوتے کا موقف صحیح نہیں ہے۔(واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:294

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ