سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(265) فوت شدہ کا ترکہ میں حصہ

  • 11482
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 721

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شاہدرہ سے محمد علی سوال کرتے ہیں۔کہ میرا یک بھائی جس کا لڑکا او ر دو لڑکیاں تھیں۔ میرے والد کی زندگی میں فوت ہوگیا اس کے دوسال بعد ہمارے والد محترم بھی انتقال کر گئے۔ اب ہم دو بھائی اور چار بہنیں زندہ ہیں۔ ہم اپنے باپ کے  ترکہ کو کیسے  تقسیم کریں کیا مرحوم بھائی کے بچے  ہمارے باپ کی جائیداد میں شریک ہیں یا نہیں اگرہیں تو کس قدر؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے ک اسلامی قانون وراثت کے مطابق دورکے رشتہ دار قریبی رشتے دا ر کی موجودگی میں محروم  ہوتے ہیں۔اس قاعدہ کی رو سے بیٹیوں کی موجودگی میں پوتا محروم ہوتا ہے۔ ہاں اگر مرنے والا اپنے پوتے کے حق میں وصیت کرگیا ہوتو 3/1 کی حد تک وصیت کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ یا تمام بیٹے باہمی رضا مندی سے اسے کچھ دے سکتے ہیں۔ البتہ قانونی طور پر بیٹوں کی موجودگی میں پوتا حقدار نہیں ہوتا۔ لیکن مرحوم بھائی کی بیوی انہی کے رحم وکرم پر بیٹھی ہو تو بھایئوں کو چاہیے کہ وہ اپنے یتیم بھتیجوں کوکچھ نہ کچھ ضرور دیں۔جہاں تک جائیدادکی تقسیم کاتعلق ہے۔ تو اس کاضابطہ یہ ہے کہ لڑکے کو لڑکی مقابلہ میں دو گناہ حصہ دیا جائے۔صورت مسئولہ میں کل منقولہ اورغیر منقولہ جائیداد کے آٹھ حصےکرلیے جایئں دو دو حصے فی لڑکا اور ایک ایک حصہ فی لڑکی کے حساب سے جائیداد کو تقسیم کردیا جائے۔اگر مرحوم بھائی کی اولاد کو باہمی رضا مندی سے کچھ دیناچاہیں تو  تقسیم جائیدادسے پہلے ان کاحصہ الگ کردیں۔اس کے بعد جائیدادتقسیم کریں۔تقسیم کی صورت حسب زیل ہے:میت :8= بیٹا ۔2 بیٹا۔2 بیٹی 1۔بیٹی 1۔بیٹی 1۔بیٹی 1

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:294

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ