سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(264) بیٹے کا اپنا حصہ مانگنا

  • 11481
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1156

سوال

(264) بیٹے کا اپنا حصہ مانگنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمد اقبال بزریعہ ای میل سوال کرتے ہیں کہ میں ا یک بیٹے کو علیحدہ کرناچاہتا ہوں لیکن وہ علیحدہ ہونے سے پہلے میری جائیداد سے اپنا شرعی حصہ مانگتا ہے میں بھی اسے حصہ دینے پر رضا مند ہوں میرے وارث یہ ہیں۔خود میری بیوی پانچ بچے اور دو بیٹیاں اس کے متعلق راہنمائی درکا ر ہے۔واضح رہے کہ ایک بچے کی شادی کرنا اور کچھ قرضے کی ادائیگی میرے ذمے ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ کی انتقال ملکیت کی دو صورتیں ہیں:

(الف) اختیاری(ب) غیر اختیاری

اختیاری طور پر انتقال ملکیت اگر بلامعاوضہ ہے۔تو ایسا زندگی میں ہبہ اور زندگی کے بعد وصیت  کی صورت میں ممکن ہے اور اگرانتقال ملکیت بالمعاوضہ ہے تو اسے بیع وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کی دوسری صورت میں جو غیر اختیاری ہے وہ ملکیت کو خود بخود مورث کی طرف سے ورثاء کی جانب منتقل کردیتی ہے۔ جس میں مورث کے ارادہ نیت یا اختیار کو کوئی دخل نہیں ہوتا اسی قسم کے انتقال ملکیت کو''وراثت'' کہا جاتا ہے۔صورت مسئولہ میں''شرعی حصہ'' لینےدینے پر اظہار رضا مندی انتقال ملکیت کی یہ آخری صورت معلوم ہوتی ہے۔لیکن سائل کا منشا یہ ہے کہ میں اس غیراختیاری انتقال ملکیت کو اپنے ارادہ اختیار سے اپنے ورثاء کی طرف منتقل کردوں۔ لیکن ایسا کرنا وراثت کے طور پر جائز نہیں ہے۔ کیونکہ انتقال ملکیت کی اس آخری صورت میں وراثت کا استحقاق اس وقت پیدا ہوتا ہے۔جب مور ث کی موت حقیقتاً یا حکما ً واقع ہوچکی ہو۔اپنی زندگی میں جیتے جی کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی جائیداد کوبطور وراثت اپنے ورثاء کی طرف منتقل کرے کیونکہ ایسا کرنے سےورثاء پر زیادتی کاامکان باقی رہتا ہے۔جوشرعاً جائز نہیں ہے جیسا کہ تقسیم جائیداد کے بعد  اگر کوئی وارث اس کی زندگی میں  فوت ہوگیا تو  اسے جو حصہ دیا گیا تھا وہ اس کاوارث نہ تھا کیونکہ وراثت میں مورث کی موت کے ساتھ ہی  وارث کی حیات کا  تعین بھی ضروری ہے۔اس بنا پر بیٹے کے والد سے اس کی زندگی میں اپنے شرعی حصے کا مطالبہ کرنادرست نہیں ہے۔البتہ ہبہ یا عطیہ کی صورت میں ایسا ہوسکتا ہے۔لیکن اسے شرعی حصہ قرارنہیں دیا جائے گا۔ یہ تو سراسر والد کی مرضی پر موقوف ہے۔ نیز ہبہ میں دوسری اولاد خواہ نرینہ ہو یا مادینہ انہیں مساویانہ طور پر شامل کرناہوگا۔وہ بیٹا اگر والد کے ساتھ کاروبار میں شریک ہے۔تو  علیحدگی کے وقت اس کا حصہ الگ کیا جاسکتاہے۔بطوروراثت والد کی جائیداد سے والد کی زندگی  میں کسی قسم کے شرعی حصہ کابیٹا حقدا ر نہیں ہے۔(واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:293

تبصرے