سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(262) قرعہ اندازی میں پلاٹ کی تقسیم

  • 11478
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 879

سوال

(262) قرعہ اندازی میں پلاٹ کی تقسیم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ساہیوال سے الٰہی بخش لکھتے ہیں کہ میرے بھائی نے ایک رہائشی سکیم میں بذریعہ قرعہ اندازی میرے لئے پلاٹ آلاٹ کرایا پھر اس پر اپنی گرہ سے مکان تعمیر کیا اور بارہا اپنے دیگر رشتہ داروں کے سامنے کہا کہ یہ پلاٹ اور مکان میرے بھائی کے  لئے ہے وفات سے چنددن قبل بھی اس بات کودھرایا کہ میرا ترکہ بحصہ شرعی تقسیم کرلیا جائے لیکن مکان میں نے جسے دیا ہے ا سکے متعلق جھگڑا نہ کرنا اب دوسرے ورثاء اس مکان سے حصہ طلب کرتے ہیں کیا ان کا شرعی حصہ مکان سے بنتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دینا میں خود مختار بنا کر بھیجا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جیسے چاہے استعمال کرسکتاہے مال وجائیداد بھی اللہ تعالیی کی ایک نعمت ہے اس میں بھی جائز  طور پر اسے تصرف کرنے کا پورا حق ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان  ہے:'' کہ ہرمال دار اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ  حق رکھتا ہے۔جیسے چاہے استعمال کرے۔''(بیہقی :6/ 178)

صورت مسئولہ میں مرحوم نے اپنے بھائی کے نام پلاٹ آلاٹ کرایا پھر اس پر تعمیر بھی کرائی یہ ہبہ کی ایک شکل ہے جس کا اسے شرعاً حق ہے پھر وفات سے پہلے اپنے ورثاء کو اس کی  تاکید بھی کردی تاکہ وفات کے بعد کسی قسم کے جھگڑے کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کارجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔اگر کوئی کسی کو ہبہ کرتا ہے یا اس کا وعدہ کرتا ہے لیکن عملی شکل دینے سے پہلے وفات پاجاتا ہے۔تو ھبہ موہوب لہ یعنی جس کے لئے ہبہ کیا گیا ہے اسے ملنا چاہیے ۔انہوں نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:باب اذا وهب وعدتم مات قبل ان تصل اليه اسی طرح حضرت قاضی شریح کے متعلق بھی امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے نقل کیا ہے۔ کہ انہوں نے اپنے ورثاء کو کہا تھا'' کہ میں جو اپنی بیوی فزاریہ نامی کو دے چکا ہوں اس واپس نہ لیا جائے۔''(صحیح بخاری:کتاب الوصایا)

صورت مسئولہ میں وصیت کی شکل نہیں بلکہ ہبہ کی  صورت ہے جو متوفی نے اپنی زندگی میں بقائمی ہوش وحواس اپنے بھائی کو دیا ہے پھر قبل از موت اس کی  تاکید بھی کردی اسلئے اسے نافذ ہوناچاہیے شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ورثاء کو اس کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ بطیب خاطر اسے قبول کرنا چاہیےپھروہ انھیں جاتے وقت اس کے  نفاذ کی  تاکید بھی کرگیا ہے۔اس بنا پر اس مکان کو باہمی جھگڑے کے باعث بنانا درست نہیں ہے۔البتہ جو حضرات دوسرے ورٖثاء کو محروم کرنے کی نیت سے اپنی جائیداد زندگی میں ہی کسی ایک وارث کے نام لگوا جاتے ہیں۔ایساکرناشرعاًجائز نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کرجائے تو اس کی اصلاح کرتے ہوئے شرعی ورثاء کو ان کا حق دے دینا چاہیے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:291

تبصرے