سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(259) لے پالک کا وارث بننا

  • 11475
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 793

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بھکر سے  پروفیسر محمد مبشر لکھتے ہیں۔کہ ایک عورت جس کا خاوند فوت ہوچکا ہے۔اور اس کے ہاں کوئی اولاد بھی نہیں اس نے کسی لاوارث بچے کو لے کر پالا اس عورت کاذاتی مکان ہے جو اس نے اپنی کمائی سے خریداتھا وہ اس نے اپنے لاورارث لے پالک کے نام لگوادیا ہے کیاشرعاً ایسا کرنا  جائز ہے۔واضح رہے کہ عورت کے بھائیوں نے والد کی جائیداد میں سے اسے کوئی حصہ نہیں دیا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لے پالک اولاد کو اپنی حقیقی اولاد کا درجہ دیا جائے۔کیونکہ اس مصنوعی رشتے کے رسمی تقدس پر بھروسہ کرکے جب حقیقی رشتہ داروں جیسا خلا ملا ہوتا ہے  تو وہ برے نتائج پیدا کیے بغی نہیں رہ سکتا۔ ا س لئے شریعت اسلامیہ نے لے پالک کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھنے کے تخیل کی بڑی سختی سےحوصلہ شکنی کی ہےسورت احزاب کی آیت نمبر 4۔5۔میں اسی موضوع کو بیان کیا گیاہے۔اس کے علاوہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو حزیفہ  رضی ا للہ  تعالیٰ عنہ  کی بیوی نے حضرت سالم کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا جب اللہ تعالیٰ نے لے پالک کے متعلق ضابطہ نازل فرمایا کہ اسے حقیقی اولاد کا درجہ نہ دیا جائے تو وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا سالم کو میں نے اپنا بیٹا بنایا ہے اب اس کے متعلق کیا حکم ہے؟رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:'' کہ تم اسے پانچ مرتبہ دودھ پلا دو اس طرح وہ تمہارا رضاعی بیٹا بن جائے گا۔''(صحیح مسلم : کتاب الرضاع)

اس لئے بیوہ کو چاہیے کہ لے پالک جوان ہوجائے تو اس سے پردہ کرے باقی رہا اس کے نام اپنا ذاتی مکان لگوادینے کا مسئلہ تو اس کے متعلق عرض  ہے کہ اگر اپنے بھائیوں کو محروم کرنے کی نیت سے ایساکیا گیا ہے تو شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔کیونکہ حدیث میں ہے:'' کہ جو کوئی اپنے وارث کو اس کے شرعی حصے سے محروم کرے گا۔اللہ  تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت سے ملنے والے حصے سے محروم کردیں گے۔''(بیہقی فی شعب الایمان)

قرآئن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس بیوہ نے لے پالک کے نام اپناذاتی مکان اس بنا پر لگوادیا ہے۔کہ اس کے بھائیوں نے والد کی جائیداد سے اسے کوئی حصہ نہیں دیا ہے۔بھائیوں کا اسے باپ کی جائیداد سے محروم کرنا اگرچہ بہت بڑا جرم ہے لیکن اس آڑ میں اسے اجازت نہیں دی جاسکتی۔کہ وہ اپنے بھائیوں کو اپنی جائیداد سے محروم کردے۔کسی کودنیابنانے کے لئے اپنی آخرت خراب کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حدیث میں ہے ''کہ ہر مال دارا اپنے مال میں تصرف کرنے کازیادہ حق رکھتا ہے۔''(بیہقی :6/175)

اس حدیث کے پیش نظر صورت مسئولہ میں بیوہ بحالت تندرستی اپنا مکان جسے چاہے دے  سکتی ہے لیکن اس کےلئے شرط یہ کہ جائز  تصرف کرتے وقت کسی شرعی وارث کو اس حق وراثت سے محروم کرنا مقصود نہ ہو۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:289

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ