سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(253) وراثت کے متعلق سوالات

  • 11469
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-12
  • مشاہدات : 2186

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میاں چنوں سے عبدالمنان لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک آدمی فوت  ہوا پسماندگان میں دو بیوہ چھ لڑکے اورسات لڑکیاں موجود ہیں۔اس ن اپنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے کے نام کچھ جائیداد لگوادی جب کہ کچھ بیٹے اس کی زندگی میں برسر روزگار تھے انہیں کچھ نہیں دیا'باضابطہ طور پر انہیں الگ نہیں کیاگیا تھا۔ برسرروزگار بیٹوں نے کچھ جائیداد ذاتی طور پربنائی ہے ان حالات کے پیش نظر چند ایک سوالات کے جواب مطلوب ہیں۔

٭مرحوم کی دونوں بیویوں اور اولاد کے اس ترکہ سے کیا حصص ہوں گے؟

٭ کیا باپ کو اپنی زندگی میں کسی بیٹے کو کچھ دینے کا اختیار ہے اگر ہے  تو اس کا ضابطہ کیا ہے؟

٭ کیا باپ اپنے کسی نافرمان بیٹے کو اپنی جایئداد سے عاق کرسکتا ہے؟

٭ کیا باپ کے فیصلے کو اس کے مرنے کے بعد کالعدم کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

٭ اگر باپ کی زندگی میں اس کے بچے کاروبار کرتے ہیں۔تو ان کی کمائی سے حاصل شدہ جائیداد کی کیاحیثیت ہوگی کیا اسے باپ کے ترکے میں شمار کیا جائے گا۔ یا اسے اس کے ترکہ سے الگ رکھا جائے گا۔کتاب وسنت کی روشنی میں ان کا جواب مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مندرجہ بالا سوالات کے جوابات بالترتیب حسب زیل ہیں۔

٭دونوں بیویوں کو اس کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے آٹھواں حصہ ملے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اگر اولاد ہو تو بیویوں کے لئے اس کے ترکہ سے 8/1 ہے۔''(4/النساء :12)

بیویوں کو حصہ دے کر جو باقی بچے اسے اولاد میں اس طرح تقسیم کردیا جائے کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔'' اللہ تعالیٰ اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کاحصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا۔''(4/النساء :11)

سہولت کے پیش نظر مرحوم کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے 152 حصے کرلئے جایئں۔ان میں سے152 کا 8/1 یعنی 19 حصے دونوں بیویوں میں تقسیم کردیئے جایئں اور باقی 133حصے اس طرح تقسیم ہوں گے کہ 14'14 حصے فی لڑکا اور 7'7 حصے فی لڑکی کو دیے جائیں یعنی ایک لڑکی کو ایک لڑکے کے مقابلے میں دو گنا حصہ ملے۔

دونوں بیویوں  حصے :19

چھ لڑکوں کے حصے 6*14: 84

سات لڑکیوں کے حصے 7*7: 49

میزان:152 کل جائیداد

٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں خود مختار بنا ک بھیجا ہے۔ جس کامطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اللہ کی نعمتوں کو جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے۔مال بھی اللہ کی  طرف سے ایک نعمت ہے۔اس میں بھی تصرف کرنے کا اسے پورا پورا حق ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے'' کہ ہرمالک اپنے مال میں تصرف کرنے کازیادہ حق رکھتا ہے۔ وہ اس حق کو جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے۔''(بیہقی :ج6 ص 178)

اس  تصرف کا ضابطہ یہ ہے کہ:

1۔یہ تصرف کسی ناجائز اور حرام کام   کے لئے نہ ہو۔

2۔جائز تصرف کرتے وقت کسی شرعی وارث کو محروم کرنا مقصود نہ ہو۔

3۔ اگر یہ  تصرف بطور ہبہ ہے۔تو نرینہ اور مادینہ اولاد کے ساتھ مساویانہ سلوک پر مبنی ہو۔

4۔اگر یہ تصرف بطور وصیت عمل میں آئے تو کسی صورت میں 3/1 سے زیادہ نہ ہو اور نہ ہی کسی شرعی وارث کے لئے وصیت کی گئی ہو۔صورت مسئولہ میں باپ کو چاہے تھا کہ جائیداد دیتے وقت  تمام اولاد بیٹوں اور بیٹیوں کوبرابر برابر جائیداد دیتا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی ا للہ  تعالیٰ عنہ  کو اس کے والد نے ایک غلام بطور عطیہ دیا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کواس پر  گواہ بناناچاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا؛'' کہ کیاتو نے دوسرے بیٹوں کو بھی اس قدرعطیات دیئے ہیں۔''اس نے عرض کیا نہیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:''اس عطیہ سے رجوع کرلو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اولاد میں عدل وانصاف کیا کرو۔''(صحیح بخاری :کتاب الجمعۃ 2586)

ایک روایت میں ہے'' کہ اگر میں عطیہ کے سلسلہ میں برتری دینا چاہتا تو عورتوں کو برتری دیتا۔''(بیہقی :ج6 :ص177)

اس لئے ان احادیث کے پیش نظر باپ کا یہ اقدام غلط ہے۔کہ وہ کسی ایک بیٹے کے نام جائیداد لگوادے اور دوسروں کو اس سے محروم کردے۔

٭ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون وراثت کو پامال کرتے ہوئے کسی نافرمان بیٹے کو اپنی جائیداد سے محروم کردے اخبارات میں''عاق نامہ'' کے اشتہارات اللہ تعالیٰ کے ضابطہ وراثت کے خلاف کھلی بغاوت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔'' مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے۔جو والدین  اور  رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔ اور عورتوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے۔جو والدین اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہوخواہ وہ مال تھوڑا ہو یازیادہ لیکن اس میں یہ حصہ اللہ کی  طرف سے مقرر ہے۔''(4/النساء :7)

اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کو بلاوجہ شرعی وراثت سے  محروم نہیں کیاجاسکتا ۔احادیث میں بھی ا س کی وضاحت ملتی ہے۔ فرمان نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:'' کہ جو کسی کی وراثت ختم کرتا ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقرر کی ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت ختم کردیں گے۔''(شعب الایمان بیہقی :ج14 ص115)

اگر بیٹا نافرمان ہے تو اس نافرمانی کی سزا قیامت کے دن اللہ کے ہاں ضرور پائے  گا لیکن والد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے جائیداد سے محروم کردے ایسا کرنے سے انسان کی عاقبت کے خراب ہونےکا اندیشہ ہے۔

٭اگر باپ نے اپنی زندگی میں کوئی غلط فیصلہ کیا ہے۔تو اسے مرنے کے بعد توڑا جاسکتاہے۔    بلکہ اسے کالعدم کرکے ا کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ یہ کوئی پختہ لکیر نہیں جسے مٹانا کبیرہ گناہ ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے:''ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی طرف سے جانب داری یا حق تلفی کااندیشہ رکھتاہو اگر وہ آپس میں ان کی اصلاح کردے تو اس پر کوئی  گناہ نہیں۔''(2/البقرہ:182)

خودرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین  کے غلط فیصلوں کو ان کے مرنے کے بعد اصلاح فرمائی ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک انصاری صحابی رضی ا للہ  تعالیٰ عنہ کی کل جائیداد چھ غلام تھے۔ اس نے وصیت کے زریعے ان سب کو آذاد کردیا ا س کے مرنے اور کفن دفن کے بعد  اس کے شرعی ورثاء رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حقیقت حال سے آپ کو آگاہ کیا۔تو آپ نے مرنے والے کو سخت بُرا بھلاکہا پھر ا س کی وصیت کوکالعدم کرتے ہوئے ان چھ غلاموں کے متعلق قرعہ اندازی کی  جنہیں بذریعہ وصیت آذاد کردیاتھا 6 کا 3/1 یعنی دو غلام آذاد کردیئے اور باقی چار ورثاء کے حوالے کرکے ان کے نقصان کی تلافی کردی۔(صحیح مسلم :الایمان 1668)

دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کے متعلق فرمایا:'' کہ اگر ہمیں اس کی  حرکت کا پہلے علم ہوجاتا تو ہم اس کی نماز جنازہ ہی نہ پڑھتے۔''(مسند اماماحمد :ج4 ص443)

بلکہ ایک روایت میں ہے :'' کہ ہم اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرتے۔''(ابو داؤد :العتق 3958)

ان احادیث کے پیش نظر فیصلہ یہ کیاجاتا ہے کہ باپ نے اگرزندگی میں حقوق العباد کے سلسلہ میں کوئی غلط اقدام کیا  تھاتو مرنے کے بعد کالعدم کیا جاسکتاہے۔ اور اس میں مناسب  ترمیم کرکے کتاب وسنت کے مطابق کرناضروری ہے۔ مرحوم کے ساتھ ہمدردی کابھی یہی تقاضا ہے۔کہ اس کے غلط اقدام کو برقراررکھ کر اس کے بوجھ کو وزنی نہ بنایئں بلکہ اس کی اصلاح کرکے اس کی عاقبت سنوارنے کی فکر کی جائے۔

© اولاد کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ باپ کے ساتھ ہی کاروبار میں شریک ہوتی اور اس کے ساتھ ہی ایام زندگی گزارتی ہے اس صورت میں باپ کے  پاس رہنے والی اولاد کی کمائی باپ کی ہی شمار ہوتی ہے کیونکہ حدیث میں ہے:'' کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کے لئے ہے۔''(سنن نسائی)

ایسے حالات میں کسی بیٹے کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ چالو کاروبار سے کچھ رقم قبضہ میں کرکے اپنی الگ جائیداد بنالے اگر ایسا کیاگیا ہے تو ایسی جائیداد کو باپ کی جائیداد سمجھتے ہوئے اس کے ترکے میں شمار کرنا ہو گا۔ہاں اگر اولاد کا حق ملکیت  تسلیم کرلیاجائے۔تو اولاد میں سے کسی کو الگ جائیداد بنانے میں کوئی  حرج نہیں ہے۔یا کوئی ملازمت پیشہ بیٹا  اپنے باپ سے کہہ دے کہ میری اس رقم سے آ پ نے میرے لئے کوئی پلاٹ یا مکان خریدناہے۔ایسے حالات میں اس کی خریدی ہوئی جائیداد کو بیٹے کی جائیداد سمجھا جائے گا۔اس کے باپ کے ترکہ میں شامل نہ کیا جائے گا۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگرکسی بیٹے نے قرض وغیرہ لے  کر    پراپرٹی خریدی ہے یا مکان بنایا ہے۔ تو مکان یا پلاٹ کو باپ کے ترکے میں شامل کرتے وقت اس قرضہ کو مشترکہ جائیداد سے منہا کرنا ہوگا۔اولاد کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ کوئی بیٹا شادی شدہ ہے۔ باپ نے باضابطہ طور پر اسے الگ کردیا ہے۔ اب وہ خود محنت کرتا ہے اور اپنے گھر کا نظام بھی خود ہی چلاتاہے۔ باپ کے زمے اس کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ ایسی صور ت میں اگر وہ بیٹا کوئی مکان یا پلاٹ یا جائیداد بناتا ہے۔ تو اسے باپ کے ترکہ میں شمار نہیں  کیا جائے  گا۔ کیونکہ  اس کا الگ حق ملکیت تسلیم کرلیا گیاہے۔ایسے حالات میں باپ اس کے لین دین کا بھی ذمہ دار نہیں ہے۔

آخر میں ہم اس بات کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ حقوق العباد کا معاملہ بہت ہی نازک ہے۔قیامت کے دن اس کی معافی نہیں ہوگی۔اپنی نیکیاں دے کر دوسروں کی بُرایئاں اپنے کھاتے میں ڈال کر اس کی تلافی کی جائے گی۔ارشاد باری  تعالیٰ ہے:

''ہم قیامت کے دن انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے اس بنا پر کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہوگی اور اگرکسی کارائی کے دانے کے برابر بھی ظلم ہواتو  وہ بھی سامنے لایا جائے گا۔اور حساب لینے کے لئے ہم کافی ہیں۔''(21/الانبیاء :47)

یہ دنیا کامال ومتاع دنیا میں رہ جائے گا۔ اس کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہ کیا جائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:283

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ