سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(250) جائیداد کی تقسیم

  • 11466
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-12
  • مشاہدات : 812

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بدو ملہی سے بشیر احمد سوال کرتے ہیں کہ ایک آدمی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے میاں بیوی خود بھی حیات ہیں شرعی اعتبار سے جائیداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کس جائیداد کو تقسیم کرنا ہے۔ پھر زندگی میں یا مرنے کے بعد جائیداد تقسیم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ وراثت کے سوالات خوب واضح کرکے لکھا کریں زندگی میں انسان اپنی جائیداد کے متعلق خود مختار ہے۔ اپنی ضروریات کے لئے جتنی جائیداد چاہے صرف کردے اس سے کوئی باز پرس نہ ہوگی البتہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنے کے لئے مساوات کو پیش نظر رکھنا ہوگا اس مساوات میں مرد وزن کی بھی تفریق نہیں ہے یعنی لڑکوں اور لڑکیوں میں برابر 'برابر تقسیم ہوگی۔ صورت مسئولہ میں بیوی کو صوابدید حصہ دے کر باقی جائیداد کو چار حصوں میں تقسیم کردیا جائے تین لڑکوں اور ایک لڑکی کو ایک حصہ دے دیا جائے اگر بعد از موت تقسیم جائیداد کا مسئلہ ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔

1۔باپ کی وفات کے وقت اگر مذکورہ اولاد زندہ ہوتو ان میں جائیداد کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ بیوی کا آٹھواں حصہ نکالنے کے بعد بقیہ سات حصے اولادمیں یوں تقسیم کردیئے جائیں کہ لڑکے کو دو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ دیا جائے۔یعنی کل جائیداد کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرلیا جائے ایک حصہ بیوہ کے لئے دو دو  حصے فی لڑکا ایک حصہ لڑکی کو دے دیاجائے۔

2۔ماں کی وفات کے وقت اگر مذکورہ اولاد زندہ ہوتو جائیداد تقسیم اس طرح ہوگی خاوند کا چوتھا حصہ نکالنے کے بعد باقی تین حصے اولاد میں اس طرح  تقسیم کردیئے جائیں کہ لڑکے کو لڑکی کے حصے سے دوگنا ملے صورت مسئولہ میں سہولت کے پیش نظر جائیداد کے کل 28 حصے کرلیے جائیں۔ان کا 4/1 یعنی سات حصے خاوند کو پھر چھ چھ ہرلڑکے کو اور تین حصے لڑکی کو دیئے جائیں۔

پہلی تقسیم:

/8  بیوہ(1)لڑکا (2) لڑکا(2) لڑکا(2) لڑکی (1)=8

دوسری تقسیم:

-/28 خاوند (7) لڑکا(6) لڑکا(6) لڑکا(6) لڑکی(3) =28

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:282

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ