سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(245) اللہ تعالی کا جنت میں وراثت کو ختم کرنا

  • 11461
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-12
  • مشاہدات : 764

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میاں والی سے ضیاء الرحمٰن سوال کرتے ہیں کہ آپ نے شمارہ نمبر 16میں ایک حدیث بایں الفاظ نقل کی ہے۔'' جو کسی کی وراثت کو ختم کرتا ہے۔جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقرر کی ہے'اللہ تعالیٰ جنت میں ا س کی وراثت کوختم کردیں گے۔''(شعب الایمان :14/115)

اس کی سند کے متعلق مولانا محمد اسماعیل سلفی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں '' کہ از حد کمزور ہے اس میں دو راوی ضعیف ہیں۔اورایک کذاب ہے۔ سوید بن سعید اور زید عجمی دونوں ضعیف ہیں۔ اور عبدالرحیم بن زید کذاب ہے۔''آپ اس بات کی وضاحت کریں کہ آپ نے اس ضعیف حدیث کو دلیل کیونکر بنایا ہے؟

نیز میری بڑی ہمشیرہ جس نے شادی نہیں کی بلکہ اپنی عمر والدین کی خدمت میں گزار دی ہے۔ والد کی زمین کا تمام حساب اس کے پاس رہتا تھا والد مرحوم کی وفات کے بعد زمین کی پیداوار سےحاصل شدہ رقم کے حساب میں ٹال مٹول کرتی ہیں۔اس کا کہنا کہ کچھ رقم خرچ ہوچکی ہے اور بقیہ والد مرحوم میرے نام کر گئے ہیں۔لیکن کوئی تحریری ثبوت یا گواہ نہیں ہے کیا اس کا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

توجہ دلانے پر آپ کا شکر گزار ہوں تاہم قارئین اہل حدیث اس حیثیت سے مطمئن رہیں کہ ضعیف حدیث کے متعلق ہمارے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔مولانا اسماعیل سلفی  رحمۃ اللہ علیہ  نے جس سند کے متعلق  گفتگو فرمائی ہے۔ وہ ابن ماجہ میں مروی حدیث سے متعلق ہے۔ جبکہ ہمارا استدلال ابن ماجہ کی حدیث نہیں اور نہ ہی ہم نے اس کا حوالہ دیاہے۔ بلکہ ہمارے موقف کی بنیاد شعب الایمان کی حدیث ہے۔ جس کا فتویٰ میں حوالہ دیا  گیا تھا۔ اس  روایت میں کوئی مجروح راوی نہیں اس سند کے راوی حسب زیل  ہیں: ابو بکر محمد بن الحسین القطان ۔احمد بن یوسف السلمی۔سلم بن سلیمان خزرج بن عثمان ابو ایوب مولیٰ عثمان بن عفان حضرت ابو ہریرۃ  رضی ا للہ  تعالیٰ عنہ ۔

واضح رہے کہ ابن ماجہ میں مروی حدیث کے راوی حضرت انس  رضی ا للہ  تعالیٰ عنہ  ہیں۔ جسے بطور استشہاد تو پیش کی جاسکتا ہے۔ لیکن وہ استدلال کے قابل نہیں ہے۔اس طرح ایک  روایت علامہ سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  نے مصنف ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصور کے حوالے سے بھی نقل کی ہے ۔جس کے راوی سلیمان بن موسیٰ ہیں۔(درمنثور :2/128)

لیکن یہ مرسل ہے جو محدثین کے ہاں قابل حجت نہیں ہے۔بہرحال شعب الایمان کے حوالے سے پیش کردہ حضرت ابو ہریرۃ  رضی ا للہ  تعالیٰ عنہ  سے مروی حدیث پر کوئی کلام نہیں ہے اور محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری اترتی ہے اس سوال کے دوسرے جز کے متعلق عرض ہے کہ والدہ اپنے معذور بچے یاکسی کو خدمت گزاری کے صلہ میں کچھ سے سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی والد کی وفات کے بعد دعویٰ کر تا ہے۔ کہ مجھے والد نے یہ دیا تھا تو اس کے لئے گواہ یا تحریر کی ضرورت ہے۔ جبکہ مدعیہ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔اس بنا پر ہم اسے نصیحت کرتے ہیں کہ دنیا کا مال ومتاع دنیا میں رہ جائے گا۔ اس کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہ کیا جائے۔ حقوق العباد کا معاملہ بڑی نزاکت کا حامل ہے۔ اس کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:279

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ