السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے دو لاکھ بینک میں رکھے اسے ایک سال دس ہزار سود ملا اگر سود نہیں لیتا تو بینک کاعملہ اسے بانٹ لے گا۔لہذا وہ آدمی اپنی سود کی رقم کسی ایسے شخص کو دے دیتاہے۔ جس کے لئے مردا ر اور خنزیر کھانابھی حلال ہے۔ کیا ایسا کیا جاسکتاہے۔واضح رہے کہ وہ آدمی سود کی رقم لینے کو بہت بڑا گناہ سمجھتاہے۔(حافظ محمد ارشد کسووال خریداری نمبر5333)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے نزدیک سود ایک ایسی غلاظت ہے۔جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے اسلام ہرپہلو سے اس نطام کا استیصال چاہتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی سنگینی کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:'' اگرتم اس سے باز نہیں آؤ گے۔ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔''(2/البقرہ:278)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس گندے نظام سے نفرت دلائی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' سود لینے والا دینے والا اسےلکھنے والا اس پر گواہی دینے والا سب ملعون ہیں۔اور یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔''(صحیح مسلم :البیوع 1598)
نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ اگر اس جرم عظیم کے سترحصے کئے جائیں تو اس کاکم تر حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔"(ابن ماجہ:التجارات 2374)
بلکہ آپ نے سود کھانے کو چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔(مسند امام احمد) لیکن ہم لوگ اس کے متعلق نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں کیا اسے بینک سے وصول کرلینا چاہیے پھر
1۔ثواب کی نیت کے بغیر کسی محتاج یارفاہ عامہ میں خرچ کردیا جائے۔
2۔بینک سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑے تو سود کی جگہ اس رقم کو صرف کردیا جائے۔
3۔ناجائز ٹیکسوں پر اس صرف کردیاجائے۔
مگر جب اس سلسلہ میں شریعت کے احکام دیکھتے ہیں تو مصلحتوں کا یہ تعمیر کردہ بلند وبالا محل دھڑام سے نیچے آگرتا ہے کیوں کہ انسان فطرتاً حریص واقع ہوا ہے۔لہذا اس مال کسی بھی راہ سے آتا نظر آئے تو اسے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا جب اسے سود وصول کرلینے کی اجازت مل جائے گی۔ تو وہ خود اس گندگی سے پاک وصاف نہیں رہ سکے گا۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ک نظریے میں لچک آنا شروع ہوجائے گی۔پھر خود اسے تلاش کرنے کی راہیں تلاش کرے گا۔شریعت اسے مال تسلیم نہیں کرتی۔کہ اسے وصول کرکے دوسری جگہ پر صرف کیا جائے قرآن کریم کی واضح ہدایت ہے۔۔''اور اگر تم سود سے توبہ کرلو تم صرف اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔''(2/البقرہ :279)
جب سود کی رقم ہماری نہیں ہے۔تو ہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ اس کا مصرف کیا ہونا چاہیے بینک کا عملہ ملی بھگت کرکے اسے ہڑپ نہیں کرسکے گا۔یہ ایک مفروضہ ہے یہ رقم کسی عرصہ تک اس کے اکاؤ نٹ میں پڑی رہے گی۔پھررفتہ رفتہ سروس چار ج جیسے چور دروازے سے نکلناشروع ہو جائے گی۔صورت مسئولہ میں ہم اس قسم کی غلاظت وصول کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ:
1۔کوئی آدمی ان دنوں ایسے حالات سے دو چار نہیں ہوسکتا کہ اسے مردار اور خزیر کھانے تک نوبت آجائے۔
2۔جو آدمی دو لاکھ کا مالک ہے۔اسے چاہیے کہ اپنے دوسرے بھائی کو گندگی کھلانے کی بجائے وہ اپنی حلال پاکیزہ کمائی سے اس سے تعاون کرے یا کم از کم دو لاکھ سے پانچ ہزار زکواۃ ہی اسے دے دے۔
3۔ہماری جماعت ابھی تک ایسی خود غرضی کی شکار نہیں ہوئی کہ اس میں ایسے اہل خیر کا فقدان ہوجو آڑے وقت کسی کے کام نہ آسکتے ہوں۔اس طرح کامجبور انسان ر اقم الحروف سے رابطہ کرے اللہ کی توفیق سے ہم اسے اس قسم کی گندگی کے پاس نہیں جانے دیں گے۔ان شاء اللہ
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب