سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(236) انعامی بانڈ

  • 11452
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-10
  • مشاہدات : 1228

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خلیل احمد بزریعہ ای میل سوال کرتے ہیں۔ کہ ایک شخص اپنی حلال کمائی سے دنیاوی لالچ کی بنا پر انعامی بانڈخرید لیتا ہے۔حالانکہ یہ کاروبار شرعاً جائز نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بانڈ کی رقم پر بھی زکواۃ دینا ہوگی یا نہیں؟حالانکہ ا س کی رقم کاروبار میں مصروف ہوچکی ہے اگرچہ غیرشرعی کاروبار ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ پرائز بانڈ کاکاروبار نہ صرف سود ہے بلکہ اس میں جوا کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔سود اس لہاظ سے ہے کہ حکومت ایک متعین شرح کے حساب سے سود کی رقم کا حساب کرکے اسے انعام کی شکل میں دیتی ہے۔اس طرح یہ بانڈ حکومت کے لئے سودی قرضہ کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔اور بانڈز خرید کررکھنے والا انعامی رقم کو حاصل کرنے کی  توقع کی وجہ سے اس گناہ میں برابر کا شریک ہے۔ اور جو اس لئے ہے کہ بانڈز ہولڈ ر صرف اتفاقی طور پر نمبر نکل آنے سے بغیر کسی فعال سرمایہ کاری کے نفع حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ جوا میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔اس لئے جو شخص بانڈ خرید کر اپنے پاس رکھے ہوئے ہے اسے چاہیے کہ اس کی حرمت کے پیش نظر انہیں واپس کرکے اپنی رقم لے اور کسی مناسب کاروبار میں لگائے۔صورت مسئولہ میں ان بانڈز کی مالیت پر زکواۃدینا ہوگی۔بشرط یہ کہ یہ مالیت نصاب کو پہنچ جائے  پھر اس پر سال گزر جائے اور وہ رقم ضروریات زندگی سے بھی فاضل ہوکیوں کہ یہ ایک قرض کی صورت ہے۔اگر یہ رقم کسی کو قرض دی ہوتی۔ تو بھی اسے زکواۃ اداکرنا مالک کی زمہ داری ہے۔لہذا ان بانڈز سے زکواۃ ادا کرنا چاہیے۔البتہ اس بات کا خیال رکھے کہ زکواۃ میں یہ بانڈز وغیرہ نہ دیئے جائیں بلکہ نقدی   کی صورت میں ادا کی جائے۔ کیوں کہ بانڈز دینے سے سودی کاروبار کے پھیلنے کا اندیشہ ہے اور مسلمان کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:266

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ