سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(235) مفت لائبریری کی خاطر رقم جمع کروانا

  • 11451
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1121

سوال

(235) مفت لائبریری کی خاطر رقم جمع کروانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لاہور سے بلال حماد لکھتے ہیں کہ'' اہلحدیث'' مجریہ یکم فروری ایک اشتہار بعنوان ''اپنی لائبریری مفت بنایئں'' شائع ہوا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ مبلغ دو ہزار روپے مکتبہ اصحاب الحدیث کے ہاں جمع کرانے کے بعد ہر تین ماہ بعد جو مکتبہ کی طرف سے کتاب شائع ہوگی۔ وہ رقم جمع کرانے والوں کو مفت پیش کی جائے گی۔اور یہ جمع شدہ رقم بھی عند الطلب واپس کردی جائے  گی اس اسکیم کی شرعی  حیثیت واضح فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کے جواب سے پہلے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:'' رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادگرامی ہے''کہ قرب قیامت کے وقت سودی کاروبار اس قدر عام ہوجائےگا کہ محتاط قسم کے لوگ بھی اس کی گردوغبار سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔''(مسند امام احمد :4/494)

ہمارے نزدیک مکتبہ  اصحاب الحدیث کی طرف سے ''لائبریری مفت بنائیں'' کا اشتہار ایک سودی سکیم کا حصہ ہے کیوں کہ اس میں تین باتیں بینک کے معاملہ سے گہری مماثلت رکھتی ہیں وہ یہ ہیں:

1۔مکتبہ کے ہاں جمع شدہ ر قم بطور قرض ہے جو عند الطلب قابل واپسی ہوگی۔

2۔مفت کتاب دینے کی رعایت ایک خالص ہمدردی کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ رعایت دو ہزار قرض دینے والوں کو حاصل ہوگی۔

3۔یہ ایک خاص مدت کے ساتھ طے شدہ ہے کہ تین ماہ بعد شائع ہونے والی کتاب مفت دی جائے گی۔

بینک کامعاملہ بھی اسی طرح ہے۔

(الف) لوگوں سے قرض لیتا ہے۔جو عند الطلب قابل واپسی ہوتا ہے۔

(ب) سود دینے کی''رعایت'' صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو بینک میں خاص رقم جمع کراتے ہیں۔

(ج) اس قرض پر ایک طے شدہ مدت اورشرح کے مطابق سود دیاجاتا ہے۔

حدیث میں ہے کہ ہر وہ قرض سودی معاملہ ہے۔ جو کسی قسم کے مادی نفع کا باعث ہو مذکورہ صورت مسئولہ میں تین ماہ بعد شائع ہونے والی کتاب مفت دینے کامادی نفع صرف اس شخص کے لئے ہے جو وہ ہزار روپے مکتبہ کوبطور قرض دے گا۔عام آدم  اس  رعایت سے محروم ہوگا۔قرض دینے والا بھی کم از کم تین ماہ تک اپنی رقم واپس نہیں لے گا۔ اگر جمع شدہ رقم ناقابل واپسی ہوتو بھی جائز نہیں ہے۔اگراسے مضاربت کی شکل دی جائے اور نفع نقصان میں اسے شریک کیا جائے تو جائز ہے۔بصورت دیگر جائز نہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے معاملے سے محفوظ رکھے ۔آمین

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:266

تبصرے