السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رحیم یار خان سے محمد عثمان دریافت کرتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ انعامی سکیموں (انعامی بانڈز وغیرہ) کی شرعی حقیقت کیا ہے۔؟بعض علماء اسے جوا کی ایک قسم بتاتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حکومت کی طرف سے جاری کردہ انعامی سکیمیں شرعاً جائز اور حرام ہیں کیوں کہ یہ جوئے کی مختلف اقسام ہیں جسے قرآن نے حرام پلید اور شیطانی عمل قراردیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:بلاشبہ شراب جوا بتوں کے نام کی چیزیں اور تیروں کے زریعے قسمت آزمائی پلید اور شیطانی کام ہیں۔ان سے پرہیز کرو۔''(5/المائدۃ :90)
دور جاہلیت میں جوئے کی متعدد صورتیں تھیں جن میں ایک یہ تھی کہ کعبہ میں رکھے ہوئے چند مخصوص تیروں کے زریعے مشترکہ مال تقسیم کیاجاتا تھا۔ اس طرح کہ قرعہ اندازی کے زریعے جو تیر جس کے نام نکل آیا اور اس پرجتنا حصہ لکھا ہوتا وہ اسے مل جاتا بعض خالی تیر نکلنے کی صورت میں وہ شخص بالکل محروم رہتا ایسا کرنے سے کچھ لوگ حصہ پاتے اور کچھ بالکل تہی دست رہتے۔اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ قرآن کی نظر میں اس قسم کے تمام کام حرام ہیں۔جن میں تقسیم کا دارومدار کسی ایسے امر پررکھاجائے جس کے زریعے دوسروں کا مال کسی ایک شخص یا چند اشخاص کی جیبوں میں چلاجائے۔دریافت کردہ انعامی سکیموں میں یہ خرابی بدرجہ اتم موجود ہے۔لہذا ان کے حرام اور ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں امام ابوبکر حصاص حضرت ابن عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ''مخاطر وجوا ہے۔''(احکام القرآن :ص 1/329)
دوسرے مقام پر جوئے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:''جوئے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کو فکر اور اندیشے کی بنا پرمال کا مالک بنادیا جائے۔(احکام القرآن :ج11'465)
یعنی نتائج سے قبل کسی موہوم خطرہ کے پیش نظر فکر اور اندیشے میں مبتلا ہونا ہے۔ کہ اسے کیا ملے گا۔کم یازیادہ یا محروم رہے گا۔جو ئے میں جو رقم ملتی ہے۔وہ محنت یا کسی خدمت کا صلہ نہیں ہوتی۔بلکہ محض اتفاقی امور پر ا س کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔بعینہ یہ صورت حال انعامی سکیموں میں پائی جاتی ہے۔بعض لوگ اسے انعام کہہ کر جائز سمجھتے ہیں حالانکہ اس طرح کسی کو دی جانے والی رقم کو کسی صورت میں انعام نہیں کیاجاسکتا کیونکہ :
1۔انعام حسن کی کارگردگی یا اعلیٰ خدمات کاصلہ ہوتا ہے جبکہ اس میں ایسا نہیں ہوتا۔
2۔انعام حاصل کرنے والے سے کچھ وصول نہیں کیا جاتا جبکہ انعامی سکیموں میں شمولیت کے لئے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔
3۔انعام میں کچھ وجوہ ترجیح ہوتی ہے۔ جب ان سکیموں میں کامیابی کی بنیاد محض ''اتفاق'' ہے۔
اس کاروبار کے حرام ہونے کے لئے یہ کافی ہے۔کہ اس میں جمع شدہ رقم سے کچھ حصہ تقسیم کرکے باقی رقم ہڑپ کرجانا لوگوں کا مال ناجائز زرائع سے کھانا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سےمنع فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے مت کھاؤ۔''(4/النساء :29)
لہذا جن حضرات نے سے جوئے کی قسم قرار دیتے ہوئے حرام اور ناجائز کہا ہے وہ برحق اور ان کا موقف بالکل صحیح اور درست ہے۔قسمت آزمائی کا سہارا لےکر اسے درست کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ قسمت آزمائی جس کی بنیاد محض و وہم گمان اور اتفاقی امر پر ہو وہ ناجائز ہے جیسا کہ قرآن کریم میں تیروں کے زریعے قسمت آزمائی کو حرام ٹھرایا گیا ہے فرمان ربانی ہے:''تمہارے لئے یہ بھی حرام ہے۔ کہ تم پانسوں کے زریعے اپنی قسمت معلوم کرو۔''(5/المائدہ :3)
اس کے علاوہ اسلام میں قرعہ اندازی کی و سادہ سی صورت کو جائز کہا گیا ہے جس میں دو مساویانہ حقوق رکھنے والوں کے درمیان فیصلہ کیاجاتا ہے۔لہذا ایسی قرعہ اندازی جس میں قرعہ ڈالنے والوں کے حقوق مساوی نہ ہوں بلکہ صرف سکیم میں شمولیت کی وجہ سے ان کا حق تسلیم کیا جائے اسے کماراور جوا کہا جاتاہے۔ ایک مسلمان کے لئے ان سے بچنا ضروری ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب