سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228) خون اور مردار خرید کرمرغیوں کی خوراک بنانا

  • 11444
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 970

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سمہ سٹہ سے محمداکرم دریافت کرتے ہیں۔ کہ ایک آدمی خون اور مردار خرید کر مرغیوں کی خوراک تیار کرتا ہے پھر اس فروخت کرتا ہے اس کے کاروبار کی کیاشرعی حیثیت ہے؟واضح فرمایئں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ نے خون اور مردار کو حرام قرار دیا ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کے مطابق حرام چیزوں کی خریدوفروخت بھی حرام اور ناجائز ہوتی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے وقت اعلان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب خنزیر اور  بتوں کی خریدوفروخت کو حرام کردیا ہے۔لوگوں نے دریافت کیا کہ مردار کی چربی سے کشتیوں کو روغن اور چمڑے کو نرم کیاجاتاہے نیز لوگ روشنی کے لئے بھی اسے استعمال کرتے ہیں  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:'' کہ اس کا استعمال بھی حرام ہے اس کے بعد  فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں کوغارت کرے ان پرمردار کی چربی حرام تھیں۔ انہوں نے اسے گرم کرنے کے بعد فروخت کرناشروع کردیا اور اس کی قیمت لگانے لگے۔''(صحیح بخاری)

بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب اللہ کسی قوم پر کوئی چیز حرام کردیتے ہیں۔ تو اس کی خریدوفروخت اور اس کی قیمت وغیرہ بھی حرام ہوجاتی ہے۔(ابو دائود)

خون اور مردار چونکہ نص قرآن سے حرام ہیں  لہذا ن کی خریدوفروخت بھی حرام ہے۔اس بنا پر مرغیوں کی خوراک بنانے کے لئے خون اور مردار کی خریدوفروخت درست نہیں یہ کوئی مجبوری یا اضطراری حالت نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار زرائع معاش پیدا کر رکھے ہیں۔ لہذا اس حرام کاروبار کی بجائے کوئی اور زریعہ معاش کرلیاجائے چونکہ کسب حلال کو عبادت کی مقبولیت میں بڑا دخل ہے۔نیز ایک مسلمان کی شان کے بھی خلاف ہے۔ کہ وہ زریعہ معاش کا بہانہ بنا کر ایک حرام کو اختیار کیے رکھے البتہ خریدے بغیر اگر کہیں سے خون وغیرہ مل جائے تو مرغیوں کی خوراک تیا ر کی جاسکتی ہے۔لیکن اس تیار شدہ خوراک کی خریدوفروخت پھر بھی حرام ہی رہے  گی صرف مرغیوں کو یہ خوراک کھلائی جاسکتی ہے۔اسے بطور کاروبار نہیں اختیار کیاجاسکتا بہتر ہے کہ کوئی اور کاروبار تلاش کرلیاجائے۔تاکہ اس حرام اور ناجائز کمائی سے دور رہا جاسکے اور عبادت کے طور پر کی ہوئی محنت بے سود ثابت نہ ہو۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:261

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ