سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(222) قرضہ لے کر زمین گروی رکھنا

  • 11438
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2332

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تھنہ ضلع اٹک سے مولانا محمد اسحاق سلفی (خریداری نمبر3118) لکھتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں لوگ کئی کئی سال کے لئے لوگ قرضہ لے کر اپنی زمین گروی رکھتے ہیں پھر قرضہ دینے والا اس عرصہ میں بلاشرکت غیرے اس زمین سے پیداوارلیتاہے۔ کیا ایساکرناشریعت کی رو سے جائز ہے۔؟مجھے معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام مولنا ثناء اللہ امرتسری  رحمۃ اللہ علیہ  اور مولانا محمدحسین بٹالوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے جواز کافتویٰ دیاہے۔آپ اس سلسلے میں ہماری راہنمائی فرمایئں کہ گروی رکھی ہوئی چیز سے کس حد تک فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرض دینے کے بعد ا س کی واپسی کو یقینی بنانے کےلئے مقروض کی کوئی چیز اپنے پاس رکھنا گروی کہلاتاہے۔قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے۔کہ دوران سفراگر قرض کی دستاویز تیار کرنے والا کوئی کاتب نہ ملے تو گروی کا معاملہ کیاجاسکتاہے۔اس گروی شے سے فائدہ لینے کے متعلق علماءحضرات کی مختلف آراء ہیں جن کی تفصیل حسب زیل ہے:

1۔مطلق طور پر گروی شدہ چیز سے فائدہ لیاجاسکتا ہے یہ جائز اور مباح ہے۔

2۔گروی چیز کی بنیاد قرض ہے۔اور جس نفع کی بنیاد قرض ہو وہ سود ہوتا ہے۔لہذا اگر گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھانا سود کی ایک قسم ہے اور ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے۔

3۔حقیقت کے اعتبار سے گروی شدہ چیز چونکہ اصل مالک کی ہے۔ اس لئے اس کی حفاظت اور نگہداشت کرنا اس کی زمہ د اری ہے۔اگر ایسا کرنا ناممکن اوردشوارہو یا وہ خوداس زمہ داری سے دستبردار ہوجائے تو جس کے پاس گروی رکھی ہے وہ بقدر حفاظت ونگہداشت اس سے  فائدہ اٹھانے کا مجاز ہے۔

ہمارے نزدیک یہ آخری موقف کچھ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے البتہ اس میں کچھ تفصیل ہے۔ کہ اگر گروی شدہ چیز دودھ دینے والا یاسوای کے قابل کوئی جانور ہے۔تو اس کی حفاظت ونگہداشت پر اٹھنے والے اخراجات کے بقدر اس سے فائدہ بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں اصل مالک کے زمہ اس کی حفاظت ونگہداشت کا بوجھ ڈالنا  فریقین کے لئے باعث تکلیف ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''کہ سواری کا جانور اگر گروی ہے تو اس پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے سواری کی جاسکتی ہےاور اگر دودھ دینے والا جانورہے تو اخراجات کی وجہ سے اس کا دودھ پیا جاسکتا ہے۔اور جوسواری کرتا ہے یا دودھ پیتا ہے۔ اس کے زمہ اس جانور کی حفاظت ونگہداشت کے اخراجات ہیں۔''(صحیح بخاری :الرھن 2512)

واضح رہے کہ سواری کرنے یادودھ پینے کی منفعت اس پراٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے ہے اور اس سے مراد اصل ماک نہیں بلکہ وہ آدمی ہے۔جس کے پا س گروی رکھی گئی ہے۔کیونکہ بعض روایات میں اس کی صراحت موجود ہے۔(دارقطنی :البیوع 2906)

نیزاخراجات برداشت کرنے کے بدلے وہی شخص فائدہ لے سکتا ہے۔جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے۔کیوں کہ اصل مالک کاانتفاع تو اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ ا س کے مالک ہونے کی بنا پر ہوتا ہے۔نیز یہ  فائدہ بھی اپنے استعمال کی حد تک ہے۔ اس دودھ کو بیچنا یا سواری کے جانور کوکرایہ پردینا درست نہیں ہے۔ بعض حضرات اس حد تک  احتیاط کی تلقین کرتے ہیں۔ کہ اخراجات سے زائد فائدہ نہیں اٹھاناچاہیے چنانچہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں'' کہ اگر سواری کا جانور گروی رکھا گیاہے تو اس پر اخراجات کے بقدر سواری کی جاسکتی ہے۔ اس طرح دودھ کے جانور سے چارے کے بمقدار دودھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔''ایک روایت میں ہے کہ چارے کی قیمت سے  زائد دودھ حاصل کرنا سود ہے۔(فتح الباری :5/178)

لیکن ا س قدر باریک حساب کتاب محض تکلف ہے۔اگرگروی شدہ چیز ایسی ہے۔کہ اس کی حفاظت ونگہداشت پر کچھ خرچ کرنانہیں ہوتا مثلا زیورات یا قیمتی دستاویزات وغیرہ تو ایسی چیز سے فائدہ لینا درست نہیں ہے۔کیوں کہ ایساکرنا گویا اپنے قرض کے عوض فائدہ اٹھانا ہے۔جس میں سود کاواضح شائبہ ہے۔اگر گروی شدہ چیززمین کی صورت میں ہے۔جیسا کہ صورت مسئولہ میں ہے۔ تو اس کے متعلق ہمارے برصغیر کے علماء میں اختلاف ہے۔مولان محمدحسین بٹالوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بخاری شریف کی زکر کردہ حدیث پرقیاس  کرتے ہوئے گروی شدہ زمین سے  فائدہ اٹھانے کے جواز کافتویٰ دیا ہے۔جیسا کہ  فتاویٰ ثنائیہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔(409/1)فتاویٰ ثنائیہ میں ہی مولاناشرف الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کا مفصل جواب دیاہے کہ :دعویٰ عام کے لئے دلیل بھی عام ہی درکار ہوتی ہے۔پھر یہاں عام یا غیر مخصوص کو منصوص مخصوص پر قیاس کیا گیاہے۔ اور یہ بھی قاعدہ ہے کہ جو حکم خلاف قیاس ہو وہ مورد نص پر منحصر رہتا ہے۔کیوں کہ اصل اموال میں حرمت قطعی ہے اس لئے جب تک صحیح دلیل سے حلت کی تصریح نہ ہو قیاس سے اس کی حلت ثابت نہ ہوگی خصوصا جو حکم خلاف قیاس ہو اس پر قیاس نہیں کیاجاسکتا۔فتاویٰ ثنائیہ میں یہ بحث طویل اور لائق مطالعہ ہے۔سید نزیر  حسین دہلوی۔مولان عبدالرحمٰن مبارک  پوری۔مولانا عبد الوہاب۔مولانا سید عبد الجبار بن عبد اللہ غزنوی اور مولانا حافظ عبداللہ  روپڑی  رحمۃ اللہ علیہ  عدم جواز کے قائل ہیں۔

حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  حدیث بخاری پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں''کہ یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو مرہونہ چیز سے فائدے کے قائل ہیں۔ جبکہ اس کی نگہداشت کی جائے ۔اگرچہ اصل مالک اجازت نہ دےایک گروہ کا خیال ہے کہ مرتہن کو اٹھنے والے ا خراجات کے مقابلے میں صرف سواری کرنے اور دودھ لینے کا حق ہے۔ اس کے علاوہ اور کسی قسم کا فائدہ نہیں لیاجاسکتا جیسا کہ حدیث کے  مفہوم سے متبادر ہے۔البتہ جمہور اہل علم کاموقف ہے کہ جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی ہوئی ہے۔وہ اس چیز سے کسی قسم کافائدہ  نہیں اٹھاسکتا مذکورہ حدیث کے متعلق ان کا یہ موقف ہے۔ کہ اس میں فائدہ اٹھانے کا زکر ہے۔ اور ایسا کرنا خلاف قیاس ہے۔لہذا مورنص پر منحصر رہے گا۔ لہذا اس پر مذیدقیاس کرکے انتفاع کادروازہ کھولناصحیح نہیں ہے۔خلا ف قیاس اس لئے ہے کہ اس میں اصل مالک کی اجازت کے بغیر سواری کرنے اور دودھ لینے کی اجازت دی  گئی ہے۔حدیث میں ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی جانور کا دودھ نہ حاصل کیاجائے۔(صحیح بخاری :القطہ 2425)

 پھر اس میں استفادے کا حق صرف اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے ہے۔قرضے کے عوض فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔(فتح الباری :5/178)

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سید نزیرحسین دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  کا یک فتویٰ مع سوال درج کردیاجائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:254

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ