سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(221) حکومت کا جی پی فنڈ سود کے ساتھ واپس کرنا

  • 11437
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2035

سوال

(221) حکومت کا جی پی فنڈ سود کے ساتھ واپس کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لاہور سے محمد رفیق لکھتے ہیں۔ کہ حکومت اپنے ملازمین کی تنخواہ سے جی پی فنڈ کی جبرا کٹوتی کرتی ہے پھر ریٹائر منٹ کے وقت کٹوتی مع سود ملازم کودی جاتی ہے۔ اب اس سود کی رقم کو حکومت سے وصول کیاجائے یا حکومت کے پا س یعنی بینک میں چھوڑ دیا جائے اگر وصول کیا جائے تو اس کا مصرف کیا ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم اس کا جواب دینے سے پہلے اپنے قارئین کے لئے جی  پی  فنڈ کے متعلق کچھ معلومات درج کرناچاہتے ہیں تاکہ جواب دیتے وقت اس کا کوئی پہلو  تشنہ نہ رہے ۔یہ لفظ  جنرل پراویڈنٹ فنڈ کا مخفف ہے۔ جس کا معنی عمومی  بچت فنڈ ہے۔ یہ حکومت کی بظاہر رفاہی سکیم ہے۔ جو اپنے ملازمین کو فراہم کرتی ہے۔ اس کا باقاعدہ ایک طریق کار ہے جس کی وضاحت کچھ یوں ہے۔

٭ جو ملازمین اس سکیم میں شامل ہونا چاہیں حکومت متعلقہ محکمہ کی وساطت سے انہیں وہ  فارم فراہم کرتی ہے ایک فارم پر ملازم کے کوائف ہوتے ہیں جب کہ دوسرا نامزدگی کاہوتاہے۔ کہ ملازمت کے دوران ملازم کے مرنے یا کسی حادثہ کا شکار ہونے کی صورت میں یہ واجبات کون وصول کرے گا۔

٭ فارم  پر کرنے کے بعد اکاؤنٹ آفس کی طرف سے ملازم کے لئے ایک نمبر الاٹ ہوتا ہے جسے اکاؤنٹ نمبرکہا جاتا ہے۔ آئندہ ملازم سے متعلقہ رقوم کا حساب اسی نمبر کے حوالہ سے کیا جاتا ہے۔

٭ تنخواہ کے سکیل کے لہاظ سے ملازم کی تنخواہ سے ہر ماہ کٹوتی ہوتی ہے۔جو بینک میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ حکومت کے  اس کے متعلق جو ضوابط ہیں ہمیں تلاش بسیار کے باوجود کوئی ایسا ضابطہ نہیں ملا۔ جس کی رو سے یہ کٹوتی ضروری ہو البتہ عملا ایسا ضروری ہے بصورت دیگر ملازم کوکچھ مراعات سے محروم ہونا پڑتاہے۔یا کم از کم ہر ماہ تنخواہ کی ادائیگی ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ہوجاتی ہے۔

٭  فارم کے  خانہ نمبر 14 کے مطابق ملازم کو اختیار ہوتا ہے کہ فراغت کے وقت وہ اصل کٹوتی لے گا یا اس کے ساتھ فراہم ہونےوالا سود بھی وصول کرے گا۔

٭ اگر ملازم مجوزہ کٹوتی سے زیادہ رقم جمع کرانا چاہے تو اس کی سہولت دی جاتی ہے لیکن اس کے لئے الگ درخواست محکمہ کو دینا ہوگی۔

٭ اگر ملازم کی سروس دس سال سے کم ہے تو وہ صرف جی پی فنڈ لینے کا مجاز ہے۔ اگر دس سال سے زائد سروس ہے۔تودیگر مراعات (پنشن گریجویٹی) کا حقدار ہوگا۔

٭ ملازم کو یہ سہولت دی جاتی ہے کہ وہ دوران سروس کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر 80٪ جی پی فنڈ لے سکتا ہے۔ اس کے بعد اگر سروس تین سال یا عمر55 سال ہے۔تو یہ فنڈ ناقابل واپسی بصورت دیگر اسے چھتیس اقساط میں ماہ بما ہ اپنی تنخواہ سے محکمہ کو واپس کرنا ہوگا۔اصل کٹوتی بدستور جاری رہے گی۔

٭ اس فنڈ کا ملازم کی پنشن یا  گریجویٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملازم کو اختیار ہوتا ہے ک وہ اپنی پنشن کا  40٪ یکمشت وصول کرلےجسے گریجوٹی کہا جاتا ہے۔ اور باقی 60 ٪ ماہ بماہ وصول کرتا رہے۔ یا یکمشت لینے کی بجائے وہ ماہ بما وصول کرے۔اس صورت میں پنش کی مقدارزیادہ ہوگی۔

٭ اس کٹوتی پر ملنے والے سود کی  شرح متعین نہیں ہوتی۔بلکہ 15 فیصد سے 20 فیصد کے درمیان رہتی ہے البتہ جتنا سود ہوتا ہے اس پر مذید حکومت 30 فیصد کے حساب سے بونس جمع کرتی ہے آئندہ سال کٹوتی +سود+بونس کی مجموعی رقم پر سو د لگایا جاتا ہے۔یعنی یہ سود مرکب کی ایک صورت ہے۔

٭ چند سالوں بعد اس کٹوتی کی  رقم میں حیران کن اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ اضافہ ایسی برق رفتاری سے ہوتا ہے۔ کہ اصل کٹوتی سے سود کہیں زیادہ ہوجاتا ہے۔

واضح رہے کہ دس سال کی کٹوتی ۔/6000 روپے ہے جبکہ جی پی فنڈ دس سال میں 264186 روپے ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل کٹوتی میں 204186 روپے سود کے ہیں۔دیکھیں آپ کے سود کس رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ یہ تو دس سالہ سروس کے اعدادوشمار ہیں بعض اوقا ت ملازمین کی سروس بیس اور پچیس سال بھی ہوجاتی ہے۔کچھ ملازمین یہ کہتے ہیں کہ سود کے علاوہ حکومت کچھ اس میں اپنی طرف سے رقم شامل کرتی ہے۔حالانکہ یہ مفروضہ صحیح نہیں ہے۔بلکہ یہ سود مرکب کاکرشمہ ہے۔

٭ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس اس بات کا پابند ہے کہ وہ سال کے اختتام پر ملازم کو ایک سلپ جاری کرے جس میں اصل کٹوتی سود اور بونس کی وضاحت ہو لیکن وہ ہجوم مشاغل کا بہانہ بنا کر ایسا نہیں کرتا اگر ملازم ہر سال یا فراغت کے وقت کےلئے درخواست دے تو محکمہ کی طرف سے یہ اعدادوشمار فراہم کردیئے جاتے ہیں۔

٭اس جمع شدہ فنڈ پر ہرسال زکواۃ بھی کاٹی جاتی ہے۔لیکن اس زکواۃ کی شرعی حیثیت انتہائی مخدوش ہے۔بینک کے سیونگ اکاؤنٹس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ لہذا بینک میں جمع شدہ رقم کی از خودزکواۃ دینا چاہیے۔جی پی فنڈ کے متعلق یہ  وہ تفصیلات تھیں جو ہم نے متعلقہ اشخاص سے حاصل کیں اب اس کی شرعی حیثیت کوبیان کرتے ہیں۔

٭ یہ بات تو واضح ہے کہ جی پی فنڈ میں اصل کٹوتی سے جو زائد رقم دی جاتی ہے۔وہ سود ہے۔چنانچہ خود گورنمنٹ اس کی معترف ہے۔جیسا کہ اس کے متعلقہ فارم کے خانہ نمبر 14 میں ہے۔

''کیا ملازم اپنی تمام جمع شدہ رقم پرسود کا خواہش مند ہے یا نہیں''؟

اور سود کو قرآن مجید میں بڑی صراحت او ر شدت کے ساتھ حرام قراردیا گیا ہے۔ اور سود خوروں کے متعلق جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ سود کا وجود روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ جو لوگ سودکھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوں مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کوشیطان  لپٹ کر خبطی بنادے۔''(2/البقرہ:275)

قرآن مجید میں جا بجا بُرے افعال اور گندے کردار کی مذمت کی گئی ہے۔اوراہل ایمان کو اس سے سختی کے ساتھ روکاگیاہے۔ کہ وہ اخلاقی بُرایئوں میں ملوث ہوں۔ یاگناہوں اور بدکاری کی زندگی بسر کریں۔ اس طرح جو لو گ اللہ کی قائم کردہ حدوں کو توڑیں انھیں بھی شدید  ترین عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ لیکن قرآن مجید نے کفر اور شرک کے بعد جس شدت سے سودی لین دین کی مذمت کی ہے۔اس کی مثال کسی اور بُرائی کے ضمن میں نہیں ملتی۔چنانچہ فرمان نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:''اگر کوئی آدمی ایک  مرتبہ دانستہ طور پر ایک درہم سود کھا ئے۔تو وہ چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔''(دارقطنی :3/16)

نیز رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

''جس قوم میں سود خوری عام ہوجائے انھیں اللہ کی طرف سے قحط سالی میں پکڑ لیا جاتا ہے۔اور جو قوم رشوت ستانی میں گرفتار ہو اس پر اغیار کا رعب اور دب دبہ مسلط کردیاجاتاہے۔''(مسندامام احمد :4/205)

حدیث میں ہے کہ عرب کے قبیلہ بنو مغیرہ کے لوگ سود  پر لوگوں کو قرض دیتےتھے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے دن ان کا پورا سود منسوخ کردیا۔ اور مکہ میں اپنے عامل کو ہدایت کی کہ اگر یہ لوگ سودی یعنی دین سے باز نہ آئیں تو ان کے خلاف جنگ کرکے انہیں اس قبیح فعل سے روک دیاجائے۔''

خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے چچا حضرت عباس  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  جو دور جاہلیت کے بہت بڑے مہاجن اور سود لے کر لوگوں کو قرضہ دیاکرتے تھے۔ ان کے متعلق بھی حجۃ الوداع میں صاف صاف اعلان کردیا:'' دور جاہلیت کا پورا سود کالعدم ہوگیا ہے۔اور سب سے پہلے میں اس سود کو منسوخ ٹھراتا ہوں جو میرے چچا عباس بن عبدالمطلب کا لوگوں کی طرف نکلتا ہے۔''(مسندامام احمد :5/73)

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود کے متعلق اپنے اندیشے کا بایں الفاظ اظہارفرمایا:

''مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ جس خطرناک کردار کااندیشہ ہے وہ سود خوری ہے۔''(مسند امام احمد :5/73)

سود خوری ایک ایسا سنگین جرم ہے کہ اس کی زد میں نہ صرف کھانے والا بلکہ کھلانے والا لکھنے والا اور گواہی دینے والا بھی آتا ہے ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سب کو ملعون قرار دیا ہے۔حضرت جابر  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود کھانے کھلانے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا:''کہ یہ سب لعنت زندگی میں برابر ہیں۔''(صحیح بخاری :کتاب البیوع)

بعض اوقات ر سول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس جرم کو بایں الفاظ بیان فرمایا:'' کہ سود کے ستر حصے ہیں۔ ان میں سے کم تر حصہ اپنی حقیقی ماں سے جماع کرنا ہے۔''(ابن ماجہ)

اگرچہ اس کی سند میں ابو معشر لحچ بن عبدالرحمٰن راوی ضعیف ہے۔تاہم دیگر شواہد کی وجہ سے علامہ البانی  رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔''(صحیح ابن ماجہ:2/27)

اب تک قابل غوربات یہ ہے کہ ملازم کو جوسودی رقم ملتی ہے۔ اس کا مالک کون ہے ملازم تو اس کا مالک نہیں کیونکہ یہ تو اسی رقم کامالک ہے۔جو ماہ بماہ ا س کی تنخواہ سے کٹوتی کی صورت میں جمع ہوتی رہی اور جو زائد رقم سود کی شکل میں ہے ملازم اس کا قطعاً مالک نہیں ہے۔اصل رقم کا متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگر تم توبہ کرو توتمہارے لیے تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیاجائے۔''(2/البقرہ :279)

سودی رقم کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے۔اگر تم مومن ہوتو اسے چھوڑ دو۔''(2/البقرہ 278)

اگر اس رقم کی وصولی پر اصرار ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''پھر اگر تم اس پر عمل نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔''(2/البقرہ 279)

ان قرآنی آیات اور احادیث کاخلاصہ یہ ہے۔

٭سود مطلق طور پر حرام ہے اس کے متعلق کوئی استثنائی صورت نہیں ہے۔

٭ سود وصول کرنے والا اللہ اور  اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔

٭سود لینا اپنے ایمان کو خیر باد کہہ دینے کے مترادف ہے۔

٭ سود خوری رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی لعنت اور پھٹکار کی باعث ہے۔

٭ سود کا ایک ایک روپیہ چھتیس چھتیس دفعہ  زنا کے برابر ہے۔

٭سود کا استعمال گویا اپنی ماں سے زنا کرنا ہے۔

٭سود لینے سے اللہ  تعالیٰ کا عذاب قحط سالی میں آتا ہے۔

ایسے حالات میں کیا ایک غیرت مند صاحب ایمان سے توقع کی جاسکتی ہے۔ کہ وہ اپنی  اصل رقم کے ساتھ سودی رقم کو بھی وصول کرے گا اگرچہ ایسے موقع پرانسان کا امتحان ہوتا ہے۔ کہ ایک طرف  تھوڑی سی رقم اور دوسری طرف ڈھیروں مال ہے لیکن جس شخص کو اپنے ایمان کی فکر ہے وہ اس گندگی کے ڈھیر کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا ارشا د باری تعالیٰ ہے:

''اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم  ! ان سے کہہ دیجئے کہ پاک اور ناپاک  یکساں نہیں ہیں۔خواہ ناپاک کی کثرت تمھیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔''(5/المائدۃ :100)

اس آیت پر غور کرنے سے قدروقیمت کا ایک دوسرا معیار سامنے آتا ہے۔جو ظاہر بین اور  دنیا پرست انسان کے معیارسے بالکل مختلف ہے بظاہر اصل کٹوتی کے مقابلے میں سودی ر قم زیادہ قیمتی ہے۔لیکن آیت میں بیان کردہ معیار کے مطابق یہ سودی رقم ناپاک ہے۔اور ملازم کی اصل کٹوتی پاک ہے۔  ناپاک خواہ مقدار میں کتنا ہی زیادہ ہوبہرحال  وہ پاک کے برابر کس طرح نہیں ہوسکتا۔سودی رقم مقدا ر میں زیادہ ہے۔ معیار میں اعلیٰ نہیں ہے۔ اصل کٹوتی مقدار میں بہت کم ہے لیکن معیار کے لہاظ سے بہت برتر ہے یہ تو ہمارے مشاہدے کی بات ہے۔کہ غلاظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدررکھتا ہے۔پیشاب کے ایک لبریز جوہڑ سے پانی کا ایک چلو زیادہ وزنی ہے۔ لہذا ایک دانا اور ایک سچے صاحب ایمان کو حلال پر ہی قناعت کرنا چاہیے خواہ وہ کتنا ہی حقیر اور قلیل ہو اور حرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہیں بڑھانا چاہیے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی زیادہ اور شاندار ہو۔

اللہ تعالیٰ کا قانون  فطرت یہی ہے کہ سود اخلاقی روحانی او ر تمدنی ترقی میں نہ رکاوٹ بنتا ہے۔بلکہ  تنزل کا باعث ہے۔ارشاد باری  تعالیٰ ہے:

''اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشو نمادیتا ہے''

یہ ایک حقیقت ہے کہ سود کا انجام غربت اور زلت ورسوائی ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:''سود کی مقدار خواہ کتنی زیادہ ہو آخر یہ غربت اور افلاس کی طرف لے جاتا ہے۔''(مسند امام احمد :1/395)

ان حقائق کے پیش نظر ہمارا یہ موقف ہے۔کہ سودی رقم کو کسی صورت میں نہ وصول کیاجائے۔ سود خوروں کے  گھر صاف رکھنے کےلئے اپنے گھر کو اس گندگی سے ملوث کرناکوئی دانشمندانہ بات نہیں۔قرآن وحدیث میں سود کے متعلق کسی قسم کا استثناء نہیں ہے۔اس کے متعلق خود استثنائی صورتیں پیدا کرلینا شریعت سازی ہے۔جس کے ہم مجاز نہیں ہیں۔سود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہماری زمہ داری یہ بیان کی ہے۔ کہ ہم اسے وصول ہی نہ کریں۔حرام خوروں کے لئے یہ حرام چھوڑ دیا جائے۔

عذر ہائے لنگ

اصل کٹوتی کے ساتھ سودی رقم لینے کے لئے کچھ مجبوریاں اور مصلحتیں بیان کی جاتی ہیں۔جن کا حاصل یہ ہے کہ:

٭ ملازم کی مرضی کے بغیر ماہ بما ہ تنخواہ سے کٹوتی ہوتی رہی جب یہ کٹوتی شروع ہوئی تھی۔اس وقت روپے کی مالیت اور موجودہ مالیت میں بہت تفاوت ہے لہذا اس نقصان کی تلافی کے لئے سودی رقم لینے میں کیا حرج ہے۔؟

٭ ملازم کو جی پی فنڈ حاصل کرنے کےلئے دفتری عملے کوکچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔لہذا یہ سودی رقم لے کر دفتری عملے کو دے دی جائے تاکہ'' مال حرام بودجائے حرام رفت'' کا مصداق بن جائے۔

٭ سودی رقم لے کر خوداستعمال نہ کرے بلکہ ثواب کی نیت کرے بغیر کسی لاچاری یا غیر مسلم کو دے دی جائے بصورت دیگر دفتری عملہ اس  رقم کو ہڑپ کرجائے گا۔

٭ سود وہ ہوتا ہے جو فریقین کی رضا مندی سے  طےہو۔اس 'سودی رقم'میں ملازم کو رضا مندی شامل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ارادہ اختیار کودخل ہے لہذا اس رقم کو اپنے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔وغیرہ۔

اصل بات یہ ہے کہ  اسلامی نظام عدل کے منافی جودھاندلیاں ہم نے سینے سے لگار رکھی ہیں۔وہ''خود ساختہ بہانوں'' کے سہارے لگا رکھی ہیں۔ ورنہ در حقیقت وہ شرعی معذرتیں نہیں ہیں۔ بلکہ عذر ہائے لنگ ہیں۔جسے ہم''خوئے بد رابہانہ بسیار'' سے تعبیر کرسکتے ہیں۔دور حاضر میں''مجبوری''ایک ایسی مکروہ کیفیت کا نام رہ گیا ہے۔ جس کا اسلام میں کوئی قطعا ً وجود نہیں ہے۔وقت اور حالات کو بدلنے کی بجائے ہم نے ایسی معذرتوں سے سازگاری پیداکرلی ہے۔جس کے بعد مجبوری مجبوری نہیں رہتی بلکہ معصیت اور مجرمانہ غفلت بن جاتی ہے۔لہذا ایسی مجبوریوں کے سہارے جو بھی خلاف شرع کام کیا جائے گا۔ اسے شرعی معذرت کے نام پر حلال یاجائز قرار نہیں دیا جاسکتا مجبوریاں ناسازگارحالات اور نامساعد ظروف کا حاصل ہوتی ہیں۔ جو لوگ ناسازگار فضائوں کو بدلنے کےلئے اپنے ہاتھ پائوں مارتے ہیں۔ اسلام میں ایسے افراد کی معذرتوں کو تاتبدیلی حالات قبول کیا جاتا ہے جہاں ایسی بات نہیں ہوتی۔وہاں اسلام ایسی مجبوریوں اور معذرتوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ یہ بہانہ سازی کی وہ مکروہ صورت ہے۔جسے اسلام دشمنی سے تعبیر کیا جائےگا۔ ہاں اگر قرآن کی بیان کردہ اضطراری حالت پیدا ہوجائے۔تو سود جیسی خبیث اور پلید چیز کو استعمال کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''البتہ جو شخص بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر ان(حرام اشیاء ) میں سے کوئی چیز استعمال کرلے بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔''(5/المائدہ :3)

دوسرے مقام پر اس اضطراری اور اس کی حد بندی کی مزید وضاحت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''ہاں جوشخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان(حرام اشیاء) میں سے کوئی چیز کھالےبغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے تو اس پر  کوئی گناہ نہیں۔''(2/البقرہ :173)

ان آیات پر غو ر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام چیز استعمال کرنے کی اجازت چار شرطوں سے دی گئی ہے۔

1۔واقعی مجبوری کی حالت میں مبتلا ہو  مثلاً بھوک پیاس سے جان پر بن گئی ہو یا بیماری کی وجہ سے جان خطرے میں ہو اور اس حالت میں حرام چیز کے علاوہ اور کوئی میسر نہ ہو۔

2۔ اللہ کے قانون کو توڑنے کی خواہش دل کے نہاں خانہ میں پوشیدہ نہ ہو۔

3۔ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔مثلاً  تھوڑی مقدار میں حرام چیز سے اگر جان بچ سکتی ہے اس سے زیادہ مقدار استعمال نہ کی جائے۔

4۔حرام کے استعمال سے کسی نافرمانی یا معصیت کے ارتکاب کا ارادہ نہ ہو۔

قرآن کریم میں ایک مقام پر بہانے باز لوگوں کاتذکرہ بایں الفاظ ہوا ہے۔

''جو لوگ اپنے آپ پر ظلم کررہے تھے۔ ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور اور مجبور تھے فرشتوں نے کہا:کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم اور بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔''(4/النساء :97)

اللہ  تعالیٰ نے بہانہ ساز لوگوں کی معذرت کوقبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔آج کل ہمارا بھی یہی حال ہے کہ ہم رخصتوں کا دامن تھامنے میں کوئی سستی نہیں کرتے۔لیکن اپنی زمہ داریوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔بلکہ اگر سوئی کے سوراخ جتنی رخصت ہوتو اس  سے اونٹ  گزارنے کی کوشش کرتے ہیںَ۔العیاذ باللہ۔ایسا کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔

اب ان حیلوں اور بہانوں کا جائز ہ لیتے ہیں۔ جو جی پی فنڈ کی سودی رقم لینے کےلئے بطور سند پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن ہم قارئین کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ کہ رزق  حلال خیروبرکت سے معمور ہوتا ہے۔جب کہ حرام مال کئی ایک مصیبتوں اور آفتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتاہے۔بعض اوقات حرام کی نحوست حلال مال کو بھی لے ڈوبتی ہے۔اگرچہ سودی رقم ہمارے پیش کردہ دس سالہ گوشوارے کے مطابق اصل کٹوتی سے چار گناہ زائد ہے۔تاہم ایک بندہ مومن کےلئے اس سے کنارہ کش رہنے میں ہی  عافیت ہے۔رزق حلال کی برکت اور مال حرام کی نحوست کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔کہ ایک بکری جو حلال  جانور ہے۔اور سال میں ایک یا دو دفعہ بچے جنم دیتی ہے۔جبکہ ہزاروں کی تعداد میں  روزانہ ان کو ذبح کیاجاتاہے۔اس کے باوجود باہر میدانوںمیں ان کے  ریوڑچرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں کتیا چھ ماہ بعد کئی بچے جنم دیتی ہے۔اورحرام ہونے کی وجہ سے کوئی زبح بھی نہیں کرتا لیکن  کتوں کے کبھی میدانی علاقوں میں  ریوڑ نظر نہیں آتے۔اب حیلوں کے متعلق گزارشات پیش خدمت ہیں:

٭ نقد کی مالیت کا اتار چڑھائو ہر دور میں رہا ہے۔ لیکن یہ مادہ پرستانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔کہ اسے بنیاد بناکر سود کو جائز قراردیاجائےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب اپنے چچا عباس بن مطلب رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  کاسود ختم کیاتھا تو کیا آپ نے اس کی مالیت کے نشیب وفراز کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی تلافی کی تھی؟پھر کیا مالیت کے فرق سے سودی رقم کی اصل کٹوتی سے چارگنا زیادہ ہوسکتی ہے؟

٭جب یہ ثابت شدہ حقیقت ہے۔کہ سودی رقم ملازم کی نہیں بلکہ اس کی رقم صرف اصل کٹوتی ہے۔تو پھر کیادفتری عملے کو رشوت دینے کےلئے دوسروں کی دولت پر شبخون مارنا کہاں کی عقلمندی ہے۔اگراپنی  رقم کے لینے کےلئے رشوت دینا ضروری ہو تو اس کا کوئی اور حل سوچیں نہ کہ اس مال سے دیں جو آپ کا نہیں ہے۔

٭ہمارے نزدیک یہ سودی رقم وصول کرنا  ہی جرم ہے۔کیوں کہ صریح نص قرآن کے خلاف ہے۔قرآن کی خلاف ورزی کرکے اسے وصول کرنا پھر ثواب کی نیت کے  بغیر کسی کو دینا اسے '' ظلمات بعضها فوق بعض''سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

٭ جب ملازم جی پی فنڈ کا فارم پرکرتاہے۔تو خانہ نمبر 14 میں اپنی  رضامندی کا اظہار نہیں کرتا تو بھی اس رقم کے سود ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔بہرحال اصل کٹوتی کے علاوہ دوسری رقم ہے۔ تو سود جسے کسی صورت میں لینا جائز نہیں ہے۔باقی رہی یہ بات کہ وہ  رقم جو ملازم کے کھاتے میں پڑی ہے۔اس کا مصرف کیا ہو؟ اس کی زمہ داری ملازم پرنہیں ہے کہ وہ اس کے متعلق درد سر اپنے زمہ لےوہ خود بخود جہاں سے آئی تھی وہاں پہنچ جائے گی۔آخر بینک میں سروس چارجز ایک کھاتہ ہوتا ہے اس کھاتہ میں جمع شدہ  رقم  تحلیل ہوے ہوئے ختم ہوجاتی ہے۔

پس چہ باید کرو؟ہمیں مختلف احباب کی طرف سے زمینی حقائق پر نظر رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔اگر اس سے مراد  باطل سے سمجھوتا کرناہے۔توایسا کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک اس کا حل یہ محکمہ جب اپنے ملازم کا جی پی فنڈ کاکھاتہ بناتا ہے۔تو اسے ایک  فارم مہیا کیا جاتاہے۔ اور اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کٹوتی کی جمع شدہ  رقم پر سود لیناچاہتا ہے یانہیں؟اگر ملازم لکھوادے کہ میں سود نہیں لیناچاہتا تو اس کی جمع شدہ رقم پر سود نہیں لگایا جاتا۔ اگر اسے کے باوجوداس کی کٹوتی میں سود شامل کردیا گیا ہے۔ تو ایک سادہ کاغذ پر درخواست دے کر اپنی جمع شدہ  رقم پر سودی اضافہ ختم کرایا جاسکتا ہے۔ہماری معلومات کے مطابق بعض احباب نےایساکیاہے۔اور انھیں صرف اصل کٹوتی ہی کی  رقم ملی ہے۔فارم کاعکس حسب زیل ہے:

قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ خانہ نمبر 14 کے مندرجات کابغور مطالعہ کریں۔حرف آخر جی پی  فنڈ کے متعلق ہماری آخری گزارش یہ ہے کہ صرف اپنی اصل کٹوتی پر اکتفا کیاجائے سود وغیرہ لینے کا لالچ نہ کرے کیوں کہ اس کے متعلق قرآن وحدیث میں بہت سخت وعید آئی ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشاد گرامی ہے:'' کہ میری اُمت پر ایسا بُراوقت آئے گا۔ کہ لوگ سود کو استعمال کریں گے۔ عرض کیاگیا کہ سب لوگ اس میں مبتلا ہوں گے؟فرمایا:کہ جولوگ سودسے اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کریں گے انہیں بھی اس کی غبار ضرور آلودہ کرے گی۔''(مسند امام احمد :2/493)

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کہ سود کو بھی ترک کردو اور جس کے متعلق تمھیں شبہ پڑ جائے اس سے بھی اجتناب کرو۔''(مسند امام احمد :1/36)

اس سلسلے میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

''جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لئے سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سو کھا چکا اس کامعاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اس حرکت کااعادہ کرے وہ جہنمی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔''(2/البقرہ:275)

ہم نے قارئین کو اپنے رب کی نصیحت پہنچادی ہے۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔(آمین )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:246

تبصرے